بائیڈن کی خارجہ پالیسی اور ہم

اس وقت دنیا کی نظریں چین اور امریکہ کے درمیان ایک نئی سرد جنگ پر مرکوز ہیں۔ اس سلسلے میں صدر ٹرمپ نے جو اقتصادی اور فوجی اقدامات اٹھائے تھے انہیں جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انتونی بلکن  (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ یہاں مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 


امریکی صدر جو بائیڈن کے انتخاب کے بعد توقع یہ تھی کہ وہ صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کو ہی دوبارہ شروع کریں گے۔ یہ توقعات اس لیے تھیں کہ صدر بائیڈن کی خارجہ پالیسی کی ٹیم تقریباً وہی ہے جو صدر اوباما کی حکومت کا حصہ تھی۔

امریکی خارجہ پالیسی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے باہمی صلاح اور مشورے سے تیار ہوتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی بھی رائے اس میں شامل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے بین الاقوامی تعلقات ملکی مفادات کے مطابق چلتے ہیں اور صدر کے بدلنے سے بہت زیادہ تبدیلی نہیں آتی۔

مثلاً وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے یہ بات کہی ہے کہ چین، اسرائیل، تائیوان، بھارت اور بحر الکاہل کے معاملات پر صدر ٹرمپ کی پالیسیاں جاری رہیں گی۔

پہلے آٹھ ہفتوں میں صدر بائیڈن نے یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات میں اعتماد کو دوبارہ بحال کیا ہے۔ جرمنی سے جو فوجیں نکالی جا رہی تھیں وہ فیصلہ بھی موخر ہو چکا ہے۔ نیٹو کو ایک دفعہ پھر مضبوط کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے مگر جرمنی اور دوسرے ملکوں پر دباؤ جاری ہے کہ وہ دفاع کے لیے اپنے وسائل کو استعمال کریں اور اسے جی ڈی پی کے 2 فیصد پر لے جائیں۔

موسمی تبدیلی کا پیرس معاہدہ جس پر صدر اوباما نے دستخط کئے اور بعد میں صدر ٹرمپ نے منسوخ کر دیا تھا اسے دوبارہ قبول کر لیا ہے۔ اقوام متحدہ کی وہ ایجنسیاں جن سے امریکہ نکل گیا تھا جیسے کہ انسانی حقوق کی کونسل اور عالمی ادارے صحت (ڈبلیو ایچ او) اس میں بھی دوبارہ رکنیت بحال کر دی ہے۔ ان اقدامات سے صدر بائیڈن نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کے وہ انفرادی کی بجائے بین الاقومی فیصلوں پر یقین رکھتے ہیں اور ان اداروں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

امریکہ، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان چار ملکی تعلقات جو پچھلے چار سال سرد مہری کا شکار رہے انہیں بھی دوبارہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر نے ان چاروں ممالک کے سربراہوں سے رابطے کیے ہیں۔ وزیر خارجہ نے ان ملکوں کے وزرائے خارجہ سے کانفرنس کی ہے اور جمعہ مارچ 12 کو سربراہی اجلاس کا بھی اعلان ہوا ہے۔

چار ملکی اتحاد کا محور تجارت، سفارت اور دفاعی اقدامات کے ذریعہ چین کے ایشیا میں اثرورسوخ کو کم کرنا ہے اور امریکہ کی اس خطے میں طاقت کو بڑھانا ہے۔ وزیر خارجہ اور وزیر دفاع اس مہینے جنوبی کوریا اور جاپان کا دورہ بھی کر رہے ہیں۔

صدر بائیڈن نے روس کو واضع الفاظ میں یہ پیغام دیا ہے کہ وہ وسط و مرکزی ایشیا اور یورپ میں روس کی مداخلت کو تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے مزید ڈھیل دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اس بات پر زور دینے کے لیے امریکہ نے نورڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں اور جرمنی پر بھی زور ڈال رہا ہے کہ اس معاہدے کو منسوخ کرے۔ اسی طرح یوکرین، شام، لیبیا اور افغانستان میں بھی روس کے اثر کو کم کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔

اس وقت دنیا کی نظریں چین اور امریکہ کے درمیان ایک نئی سرد جنگ پر مرکوز ہیں۔ اس سلسلے میں صدر ٹرمپ نے جو اقتصادی اور فوجی اقدامات اٹھائے تھے انہیں جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ چین کے اردگرد گھیرا تنگ کرنے کا بھی ارادہ ہے اور اس سلسلے میں چار ملکی اتحاد کے علاوہ، آسیان اتحاد اور تائیوان کو بھی استعمال کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

میانمار میں جمہوری حکومت کے خاتمے کو بھی اس نظر سے دیکھا جا رہا ہے کے امریکہ کے اثرورسوخ کو اس ملک میں کم کرنا تھا۔ میانمار کے فوجی جنرلوں کو چین کی حمایت حاصل رہی ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات میں ہانگ کانگ کی جمہوریت، سنکیانگ کے مسلمانوں کے حقوق، تائیوان کی آزادی اور جنونی چین سمندر میں ان کی مداخلت اہمیت کے حامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بھی نمایاں تبدیلیاں آنے کے آثار ہیں۔ چین اور امریکہ کی کشمکش میں پاکستان پر دباؤ ہوگا کہ وہ چین کو دی گئی مراعات کو کم کرے۔ اس سلسلے میں ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے ذریعہ بھی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔

افغانستان میں ’ڈو مور‘ کا بھی مطالبہ ہوگا۔ افغانستان کے معاملے پر ایک علاقائی کانفرنس کا عندیہ دیا گیا ہے جو ترکی میں ہونے کا امکان ہے اور اقوام متحدہ کے ذمہ یہ کام رکھا گیا ہے۔

میرا خیال یہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کے فیصلے کو موخر کر دے گا بلکہ ان کے تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فوجیں جنگ کی بجائے قیام امن کے لیے ہیں۔

ہندوستان اور ایران سے تعلقات میں بہتری کو اس معاملے میں افغانستان کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور پاکستان کی بجائے چابہار سے امریکی فوجوں کو کمک پہنچائی جا سکتی ہے۔ یہ کام ایک دن میں نہیں ہوگا بلکہ کچھ وقت لگے گا۔ افغانستان میں موجود فوجوں کے ذریعہ امریکہ روس اور چین دونوں پر بھی دباؤ ڈال سکتا ہے۔

امریکہ فوجوں کی افغانستان میں موجودگی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ بھی پاکستان کی سالمیت کے لیے ایک مسلسل خطرہ بن سکتی ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے والے خطہ کی صورت حال کو سمجھ نہیں پار رہے اور غلط اندازے لگا رہے ہیں۔ ان غلطیوں کی وجہ سے ملک کو بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنے سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل کو جلد از جلد حل کرے۔ یہ مجوزہ قومی سیاسی مذاکرات کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

موجودہ نظام اس قابل نہیں ہے کہ بین الاقوامی دباؤ کو برداشت کر سکے اور ایک فعال خارجہ پالیسی پر کام ہو سکے۔ نظام میں بہتری اس وقت ملکی سالمیت کے لیے سب سے اہم کام ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ