لاہوت لامکان کی ماہیکان اور برطانیہ کی میگن

افسوس اس بات کا ہے کہ جہاں نفسیاتی امراض وقت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں وہاں صوبے بھر میں ایک بھی نفسیاتی ہسپتال موجود نہیں۔

(اے ایف پی)

 

یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں


کراچی سے براستہ حب چوکی ہوتے ہوئے اگر آپ کچے پکے خستہ حال راستوں سے گزریں تو پہاڑوں سے گھرا سید بلاول شاہ نورانی کا مزار ہے۔ یہ ولی کب، کیسے بلوچستان آئے اس کی ابھی تک کوئی مصدقہ تاریخ نہیں لیکن اس درگاہ پر بظاہر اپنی دنیا میں مگن نیم دراز، خیالوں میں گم، زیر لب بڑبڑاتی ماہیکان (فرضی نام) نہ تو ڈھول کی تھاپ اسے اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہو پائی اور نہ ہی صحن میں ہونے والے دھمال کا رقص اسے سکون دے پایا۔

ماہیکان اپنی والدہ در بی بی کے ساتھ کئی دنوں سے یہاں قیام پذیر تھیں۔ اگربتیاں جلاتی در بی بی نے ہمیں بتایا کہ اس کی بیٹی ماہیکان پر بچپن سے ایک جن قابض ہے جو اس کا گھر نہیں بسنے دیتا۔ ماہیکان کا شوہر اسے چھوڑ چکا ہے اور وہ اس امید پر یہاں قیام پذیر ہیں کہ پاک جگہ پر جنات نہیں آتے۔ اسے یقین ہے کہ اس کی بیٹی یہاں سے مکمل طور پر صحت یاب ہو سکے گی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ماہیکان ہسٹیریا نامی ایک بیماری کا شکار ہے۔ اعصابی کمزوری کا مریض اکثر جذباتی ہیجان کا شکار رہتا ہے یا پھر عمومی طور پر خاموش رہتا ہے۔ گوکہ طبی زبان میں اس مرض کو اب (Conversion Disorder) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ لیکن ماہیکان کے گھر والے بضد ہیں کہ ان کے پیچھے ایک جن ہے۔

ایگزائٹی یا اضطراب کی کیفیت میں مرد اور خواتین دونوں مبتلا ہوتے ہیں گو کہ اس کا شکار خواتین مردوں سے زیادہ ہیں مگر اب بچوں میں بھی کافی حد تک اس جیسے اعصابی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔

خاندانی مسائل

حاجرہ (فرضی نام) کی شادی کو دس سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ وہ کوہلو، بلوچستان کی رہائش پذیر ہیں۔ سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی ایک پہلے سے شادی شدہ 30 سالہ شخص سے کروا دی گئی۔ لہذا کم عمری میں ہی حاجرہ کو اپنے بچوں کی پیدائش کے ساتھ ساتھ اپنی سوکن کے بچوں کی بھی پرورش کرنی پڑی۔ حاجرہ پچھلے آٹھ سال سے ڈپریشن کی مریضہ ہیں۔ غربت اور تنگ دستی کے باعث وہ اپنا علاج کسی بڑے شہر میں کروانے سے قاصر ہیں اور کوہلو جیسے بڑے ضلع میں ایسے امراض کے لیے کوئی مناسب ہسپتال موجود نہیں۔ 26 سالہ حاجرہ اسی ڈپریشن کی وجہ سے دو مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کر چکی ہیں۔ حاجرہ کا شوہر اس کا چچا زاد بھی ہے۔

بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جہاں طلاق کی شرح ملک کے دیگر صوبوں سے نسبتاً کم ہے۔ اس کی اہم وجہ خاندان سے باہر شادیاں کرنے کا کم رواج ہے۔ خاندان میں ہی ازدواج کی وجہ سے عورت کے کندھوں پر بھرپور ذمہ داری آ جاتی ہے کہ حالات چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں خاندان کو جوڑے رکھنے کے لیے وہ یہ رشتہ ختم نہیں کرسکتی۔

حاجرہ ان دنوں ایک جنرل فزیشن کے پاس زیر علاج ہیں اور ڈاکٹر کے مطابق انہیں ادویات کے علاوہ ایک پرسکون ماحول کی بھی ضرورت ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں یہ ناممکن ہے۔

کم عمری کی شادی نہ صرف ایک لڑکی بلکہ پورے خاندان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ خضدار کی امینہ پورے 25 سال کی ہوچکی ہیں لیکن وہ اب تک غیرشادی شدہ ہیں۔ پورے علاقے میں ان سے شادی کرنے کو کوئی تیار نہیں کیوں کہ 25 سالہ امینہ ان کی نظر میں بوڑھی ہو چکی ہیں۔

کم عمری کی شادی اور لگاتار بچوں کی پیدائش متعدد جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں ضلعی سطح پر مناسب صحت اور علاج و معالجے کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے خواتین اور بچے خاص طور پر اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خواتین میں حمل کے دوران ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جس کے بارے میں پسماندہ علاقوں میں حاملہ خواتین اور ان کا خاندان لاعلم ہوتا ہے۔

نقل مکانی

 بلوچستان میں بڑھتے ہوئے ذہنی امراض کی اہم وجہ نقل مکانی بھی ہے۔ دنیا بھر میں یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ نقل مکانی چاہے اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں انسان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ آواران بلوچستان کا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے جہاں لوگوں نے خراب حالات کے پیش نظر بڑی تعداد میں نقل مکانی کی۔ اسی نقل مکانی کی وجہ سے مقامی افراد کو بےسروسامانی کا سامنا کرنا پڑا۔ بے روزگاری، کرائے کے گھروں میں رہائش اور تعلیمی مسائل نے  جہاں مرد حضرات کو متاثر کیا وہاں ان مسائل کو جھیلتی خواتین شدید ذہنی مسائل کا شکار ہوئیں۔

جو لوگ واپس لوٹ چکے ہیں ان کے لیے زندگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ لوگ اپنا جما جمایا کاروبار یا پھر چھوٹی موٹی نوکریاں چھوڑنے کے ساتھ ساتھ اپنے عزیزوں اور دوستوں کی موت یا گمشدگی جیسے تلخ دور سے گزر چکے ہیں۔ اپنے پیاروں کی تلاش میں خواتین نے جو اذیتیں سہیں وہ بیان سے باہر ہیں۔ باپردہ خواتین سڑکوں پر سارا دن احتجاجی پلے کارڈ اٹھائے جب دن بھر کی دربدری کے بعد مایوس گھر کی جانب لوٹتی ہیں تو یہ مایوسی ان کے اعصاب پر ایک کاری ضرب ہوتی ہے۔ مالی مشکلات اور گھر کے سربراہ کی عدم موجودگی ان کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیتی ہے۔

بلوچستان سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی مرکزی وائس چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ بلوچستان میں ذہنی دباؤ کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہاں بدامنی اور ریاستی عدم توجہی کی وجہ سے مرد و زن دونوں یکساں طور پر ذہی کوفت کا شکار ہیں۔

یہی ایک اہم وجہ ہے کہ بلوچستان میں نوجوان ترقی کی راہ میں پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ بات عمومی طور پر دیکھی گئی ہے کہ جو چند افراد بازیابی کے بعد اپنے گھروں کو کئی سالوں بعد لوٹنے میں کامیاب ہو پائے ہیں ان میں سے زیادہ تر شدید ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔

وہ یہ بتانے سے بھی قاصر ہیں کہ ان کے روزو شب کیسے گزرے۔ ایسی صورت میں صرف ایک فرد ہی نہیں بلکہ پورا خاندان پوسٹ ٹرامیٹک ڈس آرڈر کا شکار بن جاتا ہے۔

صوبے میں قحط سالی اور پسماندگی بھی نقل مکانی کی دیگر وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق صرف بلوچستان میں 44 لاکھ سے زیادہ لوگ اس سے متاثر ہوئے جن میں ایک بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ پانی اور غذا کی کمی کی وجہ سے جہاں ان کی جسمانی نشوونما میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی وہاں یہ ذہنی دباﺅ کا بھی شکار ہوئے۔ جس میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تمباکو کا استعمال

خواتین اور خاص طور پر حمل کے دوران بلوچستان میں خواتین کا چلم (حقہ) کے استعمال سے نوزائیدہ بچوں میں مختلف بیماریاں خاص طور پر ان کی ذہنی نشوونما متاثر ہو رہی ہے۔ اسسٹنٹ پروفیسرسائیکالوجی ڈاکٹر شعیب کاشانی کے مطابق بعض علاقوں میں خواتین کا منشیات اور نشہ آور ادویات کا استعمال بھی زچگی کے دوران بچوں میں ذہنی امراض کا اہم سبب بن رہا ہے۔

ان میں سے چند خواب آور ادویات جنہیں خواتین درد کش کے طور پر استعمال کرتی ہیں بظاہر ان کے درد کو وقتی طور پر آرام تو دے دیتی ہیں مگر اس میں میتھاڈون وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ یہ ادویات عام طور پر ایران کے راستے سمگلنگ ہو کر پورے بلوچستان اور اب پاکستان میں دستیاب ہیں جو کہ ایک طرز کی منشیات ہیں۔

حکومتی اقدامات

افسوس اس بات کا ہے کہ جہاں نفسیاتی امراض وقت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں وہاں صوبے بھر میں ایک بھی نفسیاتی ہسپتال موجود نہیں۔ جن مریضوں کا مرض دائمی ہو جاتا ہے انہیں یا تو حیدر آباد بھیجا جاتا ہے یا پھر کراچی روانہ کردیا جاتا ہے۔ صوبے بھر میں ایک ادارہ Institute of Psychiatry and Behavioral Science کے نام سے کوئٹہ میں موجود ہے جو کہ پورے صوبے کے لیے ناکافی ہے۔

حکومت بلوچستان کی جانب سے چند سرکاری ہسپتالوں میں سائیکاٹرسٹ رکھنے کے حوالے سے چند اقدامات زیر غور ہیں لیکن اس سلسلے میں کمیونٹی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ وزارت صحت کے سیکریٹری نور بلوچ کے مطابق بلوچستان میں اس سلسلے میں سب سے پیچیدہ مسئلہ ہیومن ریسورس کا ہے۔ اگر ہم ادارے بنا بھی لیں تو سپیشلسٹ ڈاکٹرز کہاں سے لائیں گے۔

سیکریٹری صحت کے مطابق مناسب تنخواہ کی پیشکش کے باوجود ڈاکٹرز دور دراز کے علاقوں میں کام کرنے کے لیے رضامند نہیں ہوتے۔ بہرحال ڈیجیٹل دور ہے اور جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹرز کو آن لائن سہولیات مہیا کر کے مریضوں کو گھر بیٹھے کونسلنگ کی سہولت فراہم کرنی چاہیے۔ جہاں ہم نے دیکھا کہ برطانیہ کی میگن مارکل شدید ذہنی دباﺅ کا شکار ہو کر خودکشی کے بارے میں سوچ سکتی ہے تو اگر حکومت نے موثر اقدامات نہ اٹھائے تو ہم بلوچستان کی رہنے والی ماہیکان کو کس طرح سے بچا سکتے ہیں؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ