سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیر کو بلدیاتی انتخابات سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ پنجاب حکومت اقتدار کے نشے میں صوبے کو ملک سے الگ کرنا چاہتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا دو رکنی بینچ پیر کو ملک میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا تھا۔ سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے: ’لگتا ہے پنجاب میں مشرقی پاکستان والا سانحہ دہرانے کا منصوبہ ہے، لوگوں کو جمہوریت سے متنفر کیا جا رہا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا: ’کیا جمہوریت سے متنفر کرکے آمریت کی راہ ہموار کی جا رہی ہے؟ آئین کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے، سارا ملک برباد کر دیا، آئین پر عمل اور عوام کی مرضی تسلیم نہ کرکے آدھا ملک گنوا دیا۔‘
مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ ہونے پر جسٹس فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت ملک چلانے کی اہل نہیں ہے یا فیصلے کرنے کی؟ دو ماہ سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس کیوں نہیں ہوا؟‘
واضح رہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس وزیراعظم کی سربراہی میں ہونا ہے، جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وفاقی وزرا شریک ہوں گے۔
اجلاس میں 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے حتمی نتائج جاری کیے جانے کا امکان ہے، تاہم متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی کو سندھ میں مردم شماری کے نتائج پر پہلے ہی تحفظات ہیں۔
دوران سماعت جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے: ’پاکستان چلانے کی بنیاد ہی مردم شماری ہے، کیا مردم شماری کے نتائج جاری کرنا حکومت کی ترجیح نہیں؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’تین صوبوں میں حکومت کے باوجود کونسل میں ایک فیصلہ نہیں ہو رہا، عدالتی حکم کے باوجود اجلاس ملتوی ہونا آئینی ادارے کی توہین ہے، کوئی جنگ تو نہیں ہو رہی تھی جو اجلاس نہیں ہوسکا، اب تو ویڈیولنک پر بھی اجلاس ہوسکتا ہے۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے عدالت کو بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 24 مارچ کو ہوگا۔ ’یہ ایک حساس معاملہ ہے اور حکومت اتفاق رائے سے فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’مشترکہ مفادات کونسل کی رپورٹ کو خفیہ کیوں رکھا گیا؟ اچھا کام بھی خفیہ ہو تو شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں، کیا ملک میں اس انداز میں حکومت چلائی جائے گی؟‘
گذشتہ سماعت پر بھی ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب بلدیاتی ادارے تحلیل کرنے سے متعلق واضح جواب نہیں دے سکے تھے اور آج بھی عدالت نے ان سے بلدیاتی ادارے تحلیل کرنے کا جواز پوچھا۔
پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس لانے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’الیکشن کمیشن کے مطابق حکومت کی جانب سے نیا بلدیاتی قانون لانے سے پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے، سادہ الفاظ میں پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کروانا ہی نہیں چاہتی۔‘
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’پنجاب حکومت کا بلدیاتی آرڈیننس سپریم کورٹ پر حملہ ہے، فوج میں آرڈیننس کا مطلب اسلحہ ہوتا ہے، لگتا ہے پنجاب حکومت کو عوام سے شدید نفرت ہے، ملک پنجاب حکومت کا نہیں ہمارا ہے، جمہوریت بلدیاتی اداروں سے پھلتی پھولتی ہے۔‘
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان نے عدالت کے سوال پر بتایا کہ پنجاب اس
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مبلی 374 ارکان پر مشتمل ہے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’کیا گورنر پنجاب ان 374 ممبران سے زیادہ اہل ہیں؟ کون ہیں گورنر پنجاب؟‘
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ گورنر پنجاب کا نام چوہدری محمد سرور ہے۔ جس پر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ’کیا گورنر پنجاب وائسرائے ہیں؟ کیا گورنر پنجاب عوام کے نمائندے ہیں یا صدر مملکت کا انتخاب؟ قاسم چوہان نے عدالت کو بتایا کہ گورنر پنجاب کو وزیر اعظم کے مشورے پر صدر مملکت نے تعینات کیا۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایک شخص کی خواہش پر پوری پنجاب اسمبلی کو بائی پاس کیا گیا، گورنر پنجاب کو بتائیں کہ وہ کوئی سیاسی بیان نہیں دے سکتے، وہ سیاسی سرگرمی بھی نہیں کرسکتے۔ ’پنجاب حکومت الیکشن کمیشن کے تابع ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس وہی اختیارات ہیں جو سپریم کورٹ کے پاس ہیں۔‘
قاسم چوہان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی حکومت کا انتخابی وعدہ اور منشور تھا۔ ان کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی منشور کا حوالہ دینے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پہلی بار دیکھا کوئی سرکاری وکیل سیاسی منشور کا حوالہ دے رہا ہے۔
جسٹس عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیئے: ’کیا حکومت اور سیاسی جماعت میں کوئی فرق نہیں رہا؟ آئین کو کچھ تو عزت دیں، آمروں نے آئین کو اتنا پامال کیا۔ شاید آپ کی نظر میں اس کی عزت نہیں رہی، منشور اور انتخابی وعدے سیاسی جماعتوں کے ہوتے ہیں، حکومت کا واحد منشور صرف آئین ہوتا ہے۔‘
سماعت کے بعد مذکورہ بینچ نے پنجاب حکومت کی تحلیل اور بلدیاتی الیکشن کیس چیف جسٹس کو بھجواتے ہوئے درخواست کی کہ چیف جسٹس درخواستوں پر سماعت کے لیے تین رکنی بنچ تشکیل دیں اور رجسٹرار آفس انتخابات سے متعلقہ مقدمات جلد مقرر کرے۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں مزید کہا کہ اہم نوعیت کے مقدمات جلد نہ نمٹانے سے عدلیہ کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ 28 جنوری کو سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ایک ہفتے میں بلدیاتی الیکشن کی تاریخیں مقررکرنےکا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر چیف الیکشن کمشنر الیکشن نہیں کرا سکتے تو مستعفی ہو جائیں۔
عدالت نے اپنے حکم میں مزید کہا تھا کہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں اور خیبرپختوخوا اور سندھ میں مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات ہوں گے۔ عدالت کے مطابق پنجاب حکومت نے لوکل گورنمنٹ ترمیمی آرڈیننس کے معاملے پر الیکشن کمیشن کو اندھیرے میں رکھا اور بلدیاتی نمائندوں سے اختیارات لے کر بیوروکریٹس کو دے دیے۔
عدالت نے آج مزید حکم دیا کہ مشترکہ مفادات کونسل 24 مارچ کے اجلاس میں مردم شماری کے زیر التوا معاملے پر فیصلہ کرے۔