فیکٹ چیک: کیا واقعی اس نوجوان کے گردے نکالے گئے ہیں؟

سوشل میڈیا پر ڈاؤن سنڈروم سے متاثر ایک نوجوان کی تصویر وائرل ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ کسی نے ان کے گردے نکال کر ہسپتال لا کر چھوڑ دیا۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی اس تصویرکے نیچے صارفین نے لکھا ہے کہ یہ نوجوان تین دن سے لاپتہ تھے اور کسی نے ان کے گردے نکالنے کے بعد انہیں ہسپتال میں لا کر چھوڑ دیا (سوشل میڈیا)

پچھلے تین دنوں سے سوشل میڈیا پر ڈاؤن سنڈروم سے متاثر ایک نوجوان کی تصویر گردش کر رہی ہے جو ہسپتال کے ایک بستر پر لیٹے ہیں اور ان کے منہ کے ساتھ ایک پائپ لگا ہوا ہے۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی اس تصویرکے نیچے صارفین نے لکھا ہے کہ یہ نوجوان تین دن سے لاپتہ تھے اور کسی نے ان کے گردے نکالنے کے بعد انہیں ہسپتال میں لا کر چھوڑ دیا اور اب وہ ہسپتال کے آئی سی یو میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

خرم ذاکر نامی ایک صارف نے ٹوئٹر پر لکھا: ’عبید کچھ دنوں سے لاپتہ تھا آج کسی نے گردہ نکال کر سڑک کے کنارے پھینک دیا۔۔۔۔‘

اس تصویر کے ساتھ مزید معلومات شیئر نہیں کی گئیں کہ نوجوان کون ہیں؟ ان کا تعلق کہاں سے ہے؟ اور کیا واقعی ان کے گردے نکال لیے گئے ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو نے دو دن تک تصویر کی اصلیت اور اس نوجوان کےخاندان والوں تک پہنچنے کی کوشش کی تاکہ حقائق معلوم کیے جا سکیں۔ سب سے پہلے ہم نے تصویر کو گوگل امیج میں سرچ کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کہیں یہ تصویر کسی دوسرے ملک کی تو نہیں ہے؟

تاہم گوگل کے ذریعے تصویر کے بارے میں تفصیل نہیں مل سکی۔ اگر کوئی لنک سامنے آیا تو وہ وہی سوشل میڈیا کے کسی صارف کے اکاؤنٹ کا ہوتا جس میں وہی گردے نکالنے والی بات لکھی ہوتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب اگلا مرحلہ یہ جاننے کا تھا کہ تصویر ایڈٹ تو نہیں کی گئی؟ انٹرنیٹ پر موجود کچھ سافٹ ویئرز پر اس تصویر کو پراسیس کیا گیا لیکن تصویر میں صرف اتنی ایڈیٹنگ کا پتہ چلا کہ تین تصویروں کو جوڑا گیا لیکن ان تصویروں میں کوئی ایڈیٹنگ نہیں کی گئی تھی۔

تصویر کی حقیقت معلوم کرنے میں ایک مسئلہ یہ بھی درپیش تھا کہ مختلف سوشل میڈیا صارفین نے اس نوجوان کا تعلق مختلف علاقوں اور اضلاع سے بتایا تھا۔

کوئی کہتا تھا کہ ان کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع دیر سے ہے، جب کہ زیادہ تر لوگ یہ کہہ رہ رہے تھے کہ ان کا تعلق ضلع ٹانک سے ہے۔ کوئی نوجوان کا تعلق ایبٹ آباد سے بتا رہا تھا تو کوئی کہہ رہا تھا کہ ان کا تعلق ضلع نوشہرہ سے ہے۔

اسد نامی صارف کہا کہ نوجوان کا تعلق کراچی کے علاقے گلشن حدید سے ہے اور وہ وہاں سے تین دن پہلے لاپتہ ہوگئے تھے۔ 

ایک صارف نے ٹک ٹاک پر مشہور ہونے والے ڈاؤن سنڈروم سے متاثر ایک نوجوان کو اس تصویرکے ساتھ جوڑ دیا۔

 

اس نوجوان کا تعلق مختلف علاقوں سے اس لیے بتایا گیا کہ ڈاؤن سنڈروم سے متاثر افراد کی شکل و صورت تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے لیکن ان کا تعلق مختلف علاقوں سے ہوتا ہے۔

تب وہ مرحلہ آگیا کہ ہم اس ہسپتال سے حقیقت جانیں جس کا ذکر تصاویر میں کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا صارفین نے لکھا تھا کہ یہ نوجوان اب جناح ہسپتال میں زیر علاج ہیں تاہم یہ واضح نہیں تھا کہ یہ کون سا جناح ہسپتال ہے؟

چونکہ کراچی کے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) کا شمار ملک کے بڑے ہسپتالوں میں ہوتا ہے تو انڈپینڈنٹ اردو نے سب سے پہلے اسی ہسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی سے رابطہ کیا۔

ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ یہ مکمل طور پر جھوٹ ہے کہ اس نوجوان کے گردے نکال لیے گئے ہیں اور ان کو کسی ویران جگہ پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نوجوان کے جسم پر گردے نکالے جانے کا کوئی نشان نہیں ہے۔

ڈاکٹر سیمی جمالی کے بقول:’اصل میں یہ نوجوان روڈ حادثے میں زخمی ہوا اور اس کے سر پر چوٹیں آئیں۔ اب وہ جناح ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج ہے۔‘

ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ یہ نوجوان بے ہوش ہے اور ڈاکٹرز اس کی جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے حالت ٹھیک نہیں ہے۔

امریکی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق ہر سال دنیا میں چھ ہزار بچے ڈاؤن سنڈروم کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے بچے پیدائشی طور پر کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔

امریکی سینٹر کے مطابق ڈاؤن سنڈروم حمل کے دوران کروموسومز کے ملاپ کے وقت پیدا ہونے والی پیچیدگی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کی اوسط عمر 47 تک ہوتی ہے۔

امریکی ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2007 کے بعد ڈاؤن سنڈروم میں مبتلا افراد کی اوسط عمر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم 88 فیصد بچے پیدائش کے بعد ایک سال میں ہی مرجاتے ہیں جب کہ بعض 20 سال تک زندہ رہتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان