آئی ٹی کی صنعت پاکستان میں آمدنی کا اہم ذریعہ لیکن فری لانسر پریشان

آئی ٹی کی صنعت پاکستان میں ریونیو لانے کا بڑا ذریعہ سمجھی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس صنعت سے وابستہ افراد بالخصوص فری لانسرز کو طویل عرصے سے چند مسائل کا سامنا ہے جن میں اب اضافہ ہو چکا ہے۔

(اے ایف پی فائل)

اصبر علی گذشتہ 15 سال سے ڈیجٹیل مارکیٹنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ فری لانسنگ اور بلاگنگ کے حوالے سے خدمات فراہم کرنے کے لیے ایک ادارہ بھی چلا رہے ہیں۔ 

انہوں نے ماسٹرز تک تعلیم پاکستان میں اور ایم ایس برطانیہ سے کیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں۔ 

 اصبر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آئی ٹی ایکسپورٹ کے حوالے سے ای کامرس بہت بڑی مارکیٹ ہے، جہاں پاکستان سے لوگ اپنی چیزیں دنیا بھر میں فروخت کرتے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے اگر ہم چین کو دیکھیں تو وہ 22 فیصد آمدنی ای کامرس کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح بھارت کی سات سے آٹھ فیصد ہے لیکن پاکستان کی فروخت ان کے مقابلے میں صرف اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔ ہمیں اس میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

 اصبر علی نے بتایا کہ گذشتہ سال میں کرونا وبا کے بعد آئی ٹی کے حوالے سے بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی اور جولائی سے دسمبر کے مہینے میں 40 فیصد اضافہ ہوا۔ 

اصبر نے بتایا کہ فری لانسنگ تو ہورہی ہے۔ لیکن پاکستان سے کام کرنے والے لوگوں کو اس میں مشکلات کا سامنا ہے، جن میں سب سے اہم پیسوں کو ٹرانسفر کرنے کا مرحلہ ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ رقوم کی منتقلی کی عالمی کمپنی پے پال یہاں موجود نہیں ہے، تو اگر ہم پاکستان میں زیادہ ریونیو کمانا چاہتے ہیں تو اسے یہاں لانا بہت ضروری ہے۔ 

واضح رہے کہ آئی ٹی ایکسپورٹ پر حکومت پاکستان نے ٹیکس کے حوالے سے 2025 تک استثنیٰ دیا تھا، لیکن اب اس پر نظر ثانی کے حوالے سے بھی چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ 

اصبر علی نے بتایا کہ یہ استثنیٰ ابھی تک موجود ہے، لیکن حکومت نے جب دیکھا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو پیسہ تو بہت کمارہے ہیں لیکن وہ ٹیکس نہیں دے رہے ہیں تو حکومت سجھتی ہے ان کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے۔ 

اصبر علی خود بھی فائلر ہیں اور گذشتہ دس سال سے باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی حکومت کی بنائی ہوئی چیزوں کو استعمال کررہا ہے تو اسے ٹیکس بھی دینا چاہیے۔ 

اصبر کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے نوٹس سے وہ لوگ جو فری لانسنگ کررہے ہیں، وہ خوفزدہ ہیں۔ ’اس سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ اپنے اثاثے واضح کریں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔‘

اصبرعلی نے جو کچھ سیکھا ہے وہ دوسرے لوگوں تک بھی پہنچاتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنا یوٹیوب چینل بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’میرا مقصد لوگوں کو وہ چیز بتانا ہے جس کا میں علم رکھتا ہوں تاکہ یہ سلسلہ چلتا رہے۔‘

آئی ٹی انڈسٹری کے شعبے سے منسلک افراد ملک کے لیے ریونیو لانے کا باعث بن رہے ہیں، جس کا اعتراف پاکستان سافٹ ویئر بورڈ کے ریویو میں کیا گیا ہے۔ 

ریویو کے مطابق پاکستان میں آئی ٹی کی پانچ ہزار کمپنیاں پاکستان سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ اس وقت پاکستان میں براڈبینڈ کے سبسکرائبرز کی تعداد 9.5 کڑور ہے، موبائل فون کمپنیوں کے صارفین 17.8 کڑور اور تھری جی/ فورجی کے صارفین 9.3 کڑور تک پہنچ چکے ہیں۔ 

رپورٹ کے مطابق پاکستان فری لانسرز کے حوالے سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے، جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، اور سال 20-2019 کے دوران فری لانسرز کے ذریعے 15 کڑور ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان آیا ہے۔ 

حشام سرور بھی ایک گرافک ڈیزائنر ہیں۔ ایم بی اے کرچکے ہیں۔ وہ نہ صرف آن لائن فری لانسنگ کا کام کرتے ہیں بلکہ وہ فیس بک پر ایک پیج کے ذریعے لوگوں کو اس حوالے سے تربیت بھی دیتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 حشام کے مطابق: ’یہ شعبہ پاکستان کے لیے زرمبادلہ لانے کا بڑا ذریعہ ہے اب بھی صرف چند ماہ میں 20 کڑور سے زائد کے پیسے آچکے ہیں جبکہ پوری آئی ٹی انڈسٹری 80 کڑور کے اردگرد ہے۔‘

حشام نے بتایا کہ یہ شعبہ دن بدن ترقی کررہا ہے۔ گذشتہ سال کے مقابلے میں اس میں اضافہ ہوا ہے اور  نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہو رہی ہے۔  

حشام سرور کے فیس بک پیج پر اس وقت ایک لاکھ سے زائد ممبر ہیں۔  

فری لانسنگ کیسے کی جاتی ہے؟

حشام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فری لانسنگ کے لیے آئی ٹی کے شعبے میں مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختلف ویب سائٹس ہیں، جہاں لوگ اپنے آپ کو متعارف کراتے ہیں اور اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ ان سائٹس پر پراجیکٹ آتے ہیں، بولی لگتی ہے جس کو بڈ کہتے ہیں اور پراجیکٹ ملنے کی صورت میں فری لانسر کام کرتا ہے، اس کی کمائی بینک کے ذریعے پاکستان آتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کےعلاوہ یوٹیوب بھی بلاگنگ بھی ذریعہ ہے لیکن وہ براہ راست نہیں ہے۔ 

فری لانسر کن شعبوں میں کام کرتے ہیں؟

حشام کہتے ہیں کہ فری لانسنگ میں ویب سائٹ ڈیزائننگ، ویب ڈویلپمنٹ، کنٹینٹ رائٹنگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، سوشل میڈیا مارکیٹنگ، ڈیٹا انٹری، ورچوئل اسسٹنٹ وغیرہ ہیں اوت پھر ان میں مختلف شاخیں ہیں۔ 

 انہوں نے بتایا کہ جو بھی ان شعبوں میں مہارت رکھتا ہے، وہ سائٹس پر جاکر اپنا تعارف لکھتا ہے اور جس نے کام کروانا ہے وہ رابطہ کرکے ڈیل کرتا ہے۔ اس طرح گھر بیٹھے ایک شخص اپنی کمائی کرسکتا ہے۔ 

کن کن شہروں سے فری لانسنگ زیادہ ہے؟ 

حشام سمجھتے ہیں چونکہ فری لانسنگ انٹرنیٹ سے منسلک شعبہ ہے اس لیے پاکستان کے جن علاقوں میں انٹرنیٹ کی سپیڈ تیز ہے وہاں سے لوگ زیادہ کام کررہے ہیں۔ 

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کراچی، لاہور، ملتان، اسلام آباد، فیصل آباد، پشاور، راولپنڈی سے نوجوان فری لانسنگ کا کام کررہے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے دیگر علاقوں جیسے گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی نوجوانوں میں اس حوالے سے قابلیت موجود ہے لیکن وہاں انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے وہ فری لانسنگ کا کام نہیں کرسکتے ہیں۔ 

مسائل کیا ہیں؟

جہاں یہ شعبہ دن بدن ترقی کررہا ہے اور دنیا بھر سے لوگ فری لانسرز کے لیے پاکستان کے نوجوانوں سے رابطے کررہے ہیں وہیں ان لوگوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ 

حشام نےبتایا کہ ایک تو مسئلہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ فورجی بعض علاقوں میں نہیں ہے دوسرا یہ ہے کہ ان کے مسائل کو سننے کے لیے کوئی فورم موجود نہیں ہے، ان کی کوئی  تنظیم یا ایسوسی ایشن ہونی چاہیے۔ ’اگر کوئی فورم ہوگا تو یہ لوگ اپنے مسائل بیان کرسکتے ہیں اور اس کے ذریعے حکومت سے بھی بات کی جاسکتی ہے۔‘

حشام نے بتایا کہ ان کو بینک اکاؤںٹ کھولنے میں بھی مسائل درپیش ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اکثر ایسے نوجوان کام کررہے ہیں، جو 18 سال سے کم عمر ہیں، جن کو انٹرنیٹ تک تو رسائی ہے اور وہ کام بھی کررہے ہیں، لیکن ان کو اپنی محنت کی کمائی پاکستان لانے میں اکاؤنٹ کی ضرورت ہوتی ہے جو بینک سے نہیں بن سکتا ہے۔ 

فری لانسنگ کب شروع ہوئی؟ 

حشام نے بتایا کہ یہ سلسلہ 98-1997 سے  امریکہ سے شروع ہوا۔ ’اس وقت اگر کسی کو امریکہ میں کل وقتی ملازمت دینی ہوتی تو اس کے ساتھ انشورنس،قانونی کوریج، سالانہ چھٹیاں بھی دینا ہوتی تھیں۔  پھر کچھ لوگوں نے سوچا کہ اس کا دوسرا حل نکالنا چاہیے جس کے بعد انہوں نے ویب سائٹ بنانے کا فیصلہ کرکے اسےآؤٹ سورس کردیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں چار ہزار ڈالر دے کر کوئی کام کروایا جاتا ہے، وہی کام پاکستان میں پانچ سو ڈالر میں ہوجاتا ہے، جس کو ایک فری لانسر کردیتا ہے۔  

حشام کے بقول: ’یہ ایک وقت کے لیے ملازمت ہے۔ آپ نے کام لیا اور اسے مقررہ وقت میں مکمل کردیا ہے۔ کام کروانے والے نے پیسے ٹرانسفر کردیے اور ملازمت ختم ہوگئی۔‘ 

دوسری جانب پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن سمجھتی ہے کہ آئی ٹی سیکٹر کو جو ٹیکس استثنیٰ 2025 تک دیا گیا اس کو برقرار رکھا جائے۔ 

پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز( پاشا) کے چیئرمین اور وزیراعظم کے آئی ٹی ٹاسک فورس کے ممبر برکان سعید سمجھتے ہیں کہ آئی ٹی کا شعبہ پاکستان کے لیے ریونیولارہا ہے اسے نہیں چھیڑنا چاہیے۔ 

برکان سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ پاکستان کو آئی ٹی کے سیکٹر سے دو ارب ڈالر ریونیو ملنے کی توقع ہے، اور اگر حکومت اس کا ساتھ دیتی ہے تو یہ مزید بھی بڑھ سکتا ہے۔ 

برکان سعید حکومت کے ٹیکس لگانے کے فیصلے سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے عالمی سطح پر سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں کا اعتماد ختم ہوجائے گا۔  

 انہوں نے بتایا کہ اس عمل سے جو لوگ آئی ٹی کے سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں وہ رک جائیں گے اور وہ اتنا ہی پیسہ لگائیں گے جتنی ان کو ضرورت ہوگی۔ 

برکان نے بتایا کہ پہلے تو کنسلٹنٹ اور ٹیکس پیئر کی فیسوں میں اضافہ ہوگا۔ ایف بی آر کو دستاویزات فراہم کرنے میں بھی زیادہ وقت دینا ہوگا جس سے اصل کام رک جائے گا۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’فری لانسرز کے حوالے سے پہلے تو ایک خطرناک خبر لگی کہ پتہ نہیں انہوں نے کیا چیز قانون کے خلاف دیکھ لی ہے اور اب انہیں نوٹس بھی دیے جا رہے ہیں۔‘

برکان کے بقول: ’اگر کوئی آئی ٹی کے شعبےسے وابستہ فری لانسر پانچ سو ڈالر ماہانہ کماتا ہے، اس کو ٹیکس دینا پڑے تو اس کی ساری فیس کنسلٹنٹ کو دینے میں خرچ ہوجائے گی۔‘

برکان کے نے بتایا کہ دوسری جانب حکومت نے پیونیئر (payoneer) کو بھی نوٹس دے دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پے پال پہلے سے موجود نہیں تو اگر پیونیئر کو کام کرنے سے روکا جائے گا تو  یہ آئی ٹی انڈسٹری کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی