خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں زیر تعمیر پہلے فائیو سٹار ہوٹل کے ایک حصے پر عدالت کی طرف سے حکم امتناعی جاری ہونے کی وجہ سے کام روک دیا گیا ہے۔
بی جان ہوٹل کے مالک پاکستانی نژاد امریکی شہری انور آمان ہیں، جس کی زمین انہوں نے سینگور کے رہائشی سے خریدی تھی اور گذشتہ سال وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے اس ہوٹل کا افتتاح کیا تھا۔
اس ہوٹل پر جاری تعمیراتی کام رکوانے کے لیے شہزادہ شریف الدین اور ان کے بھائیوں نے حکم امتاعی حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا اور بالآخر دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد سینیئر سول جج نے زیر تعمیر ہوٹل کے ایک حصے پر کام رکوانے سے متعلق حکم امتناعی جاری کر دیا۔
اس سلسلے میں بی جان ہوٹل کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہوٹل کے لیے زمین کی خریداری تین سال پہلے ہوئی تھی۔ 26 کینال زمین ہم نے چھ افراد سے خریدی اور زمین کے مالکان سے 1984 کے رجسٹری کے کاغذات کی بنیاد پر خریداری کی گئی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ چترال میں 30 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری ہے۔ 20 ملین ڈالرز اس ہوٹل پر براہ راست انویسمنٹ ہے اور دس ملین ڈالرز کی مزید سرمایہ کاری ہوگی، اس میں ہوٹل کی توسیع بھی شامل ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکم امتناعی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’26 کینال میں سے 22 کینال پر کام جاری ہے اور چار کینال پر عدالت کی طرف سے حکم امتناعی کے باعث کام روک دیا گیا ہے۔‘
اس کیس میں حکم امتناعی لینے والے فریق شہزادہ گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چار کینال پر ہم حکم امتناعی حاصل کر چکے ہیں اور یہ لوگ اردگرد کی مزید زمینوں پر قبضے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ لگ بھگ مزید چار کینال ہے۔ اس کے خلاف بھی ہم درخواست دائر کر رہے ہیں۔ یہ ہماری شکار گاہ ہے اور اس زمین پر ہم شکار کھیلتے آئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’2010 میں ہم لوگ اس زمین پر کام کر رہے تھے تو ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہم لوگوں پر پرچہ کٹوا دیا تھا لیکن اس کیس سے ہم بری ہو گئے تھے۔ اب اس زمیں پر ہمارا قبضہ ہے۔‘
شہزادہ گل کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگ انور امان کو اچھی زمینیں آفر کر چکے ہیں، لیکن انہوں نے متنازعہ جگہ کا انتخاب کیا اور جن لوگوں سے انہوں نے زمیں خریدی ہے وہ غیر متعلقہ ہیں۔‘
صلح صفائی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنما سید مختار علی شاہ ایڈوکیٹ نے بتایا کہ ’یہ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے اور اس پر بات نہیں کی جا سکتی۔ ہاں ایسے مسائل پر افہام و تفہیم دونوں فریقین کے مفاد میں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ چترال کی ترقی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ ایسے پروجیکٹس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا چترال کی ترقی میں رکاوٹیں ڈالنے کے مترادف ہے۔‘