عالمی فیسٹیول میں بہترین فلم اور اداکار کا ایوارڈ ’زندگی تماشا‘ کے نام

ایک اور بہترین فلم کا ایوارڈ حاصل کرنے پر فلم کے ہدایت کار سرمد کھوسٹ کا کہنا ہے کہ وہ مایوس ہیں کہ ان کی فلم اب تک اپنے ملک میں ہی نمائش کے لیے پیش نہیں کی جاسکی۔

فلم زندگی تماشا کی ریلیز کئی مرتبہ مختلف وجوہات کی بنا پر روکی جا چکی ہے (آئی جی سی گلوبل)

اپنے ہی ملک میں پابندی کا شکار سرمد کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشا‘ نے لاس انجیلس میں منعقد ہونے والی چھٹے ایشین ورلڈ فلم فیسٹیول میں بہترین فلم اور بہترین اداکار کے ایوارڈ جیت لیے ہیں۔

کرونا کی عالمی وبا کے باعث اس مرتبہ اس تقریب کا انعقاد ورچوئل طور پر کیا گیا تھا۔

’زندگی تماشا‘ یہ فلم 25 جنوری 2020 کو سینیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جانی تھی تاہم تینوں سینسر بورڈز سے سرٹیکیفیکیٹ حاصل کرنے کے باوجود تنازعے کا شکار ہونے کہ وجہ سے اس کی نمائش نہیں کی جاسکی تھی اور وفاقی حکومت نے اس کی نمائش روکنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

ایشین ورلڈ فلم فیسٹیول سے پہلے پاکستانی فلم ’زندگی تماشا‘ (سرکس آف لائف) کو جنوبی کوریا میں منعقد ہونے والے ایشیا کے اعلیٰ ترین فلم فیسٹولز میں سے ایک ’بوسان انٹرنیشنل فلم فیسٹول‘ کے معتبر ترین ایوارڈ، ’کم جے سیوک‘ سے نوازا جاچکا ہے، جبکہ رواں برس ہونے والے آسکرز 2021 کی نامزدگی کے لیے بھی پاکستان کی جانب سے اسی فلم کو منتخب کیا گیا تھا۔

’زندگی تماشا‘ کے ایک اور بہترین فلم کا ایوارڈ حاصل کرنے پر اس فلم کے ہدایت کار سرمد کھوسٹ نے انڈیپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ستائش پر خوش تو ہیں مگر ساتھ ہی مایوس بھی ہیں کیونکہ یہ فلم جسے عالمی سطح پر تین بڑے ایوارڈز مل چکے ہیں وہ اب تک اپنے ملک میں ہی نمائش کے لیے پیش نہیں کی جاسکی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان کے لوگ یہ فلم دیکھیں کیونکہ تکنیکی اعتبار سے یہ ان کی پہلی فلم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’جب عالمی فلم فورم میں اس فلم کی نمائش کی جاتی ہے تو وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے بارے میں یہ فلم دیکھ کر ان کے خیالات میں تبدیلی آئی ہے، یہ فلم عدم برداشت پر تھی مگر اپنے ہی ملک کے لوگ اسے نہیں دیکھ سکے ہیں۔‘

سرمد کھوسٹ نے مزید کہا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک طرف تو یہ فن کو بے توقیر جانتے ہیں اور دوسری جانب اس سے اس قدر خوفزدہ بھی ہیں۔ ’فن کار کو ہر کوئی نشانہ بنا لیتا ہے کیونکہ وہ آسان ہدف ہوتے ہیں‘۔

انہوں نے شکایت کی کہ انہوں نے نظام پر بھروسہ کیا اور اس نظام ہی نے انہیں مایوس کردیا۔ ’پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی فلم کو سینیٹ کی کمیٹی میں نہیں دکھایا گیا اور جب دکھا دیا گیا تو معلوم ہوا کہ نمائش کی اجازت تو ایک دوسرا محکمہ دیتا ہے۔‘

سرمد کھوسٹ نے کہا کہ اب تک ان کے پاس کوئی سرکاری کاغذ نہیں آیا جس میں اس فلم کی نمائش کی اجازت دی گئی ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم انہوں نے ایشین ورلڈ فلم فیسٹیول میں ایوارڈ جیتنے پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ فلم سے زیادہ انہیں خوشی یہ ہے کہ عارف حسن کو بہترین اداکار کا ایوارڈ ملا ہے جس کے وہ صحیح معنوں میں حقدار ہیں۔

فلم ’زندگی تماشا‘ کو کسی عالمی ڈیجیٹل پلیٹ فارم جیسے نیٹ فلکس یا امیزون پرائم پر دینے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ سننے میں تو اچھا ہے مگر کسی نئی فلم کا وہاں جانا کوئی آسان کام نہیں۔

دوسری جانب ایشین ورلڈ فلم فیسٹیول میں بہترین اداکار کا ایوارڈ جیتنے والے عارف حسن نے انڈیپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ ذاتی طور پر تو اس پذیرائی سے خوش ہیں کہ اچھا کام کرنے کا صلہ ملا ہے اور اس سے پاکستان کا بیرونی دنیا میں جو انتہا پسندی کا تاثر ہے وہ بہتر ہوگا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس فلم کی اب تک پاکستان میں نمائش نہیں ہوسکی ہے جس کا انہیں ملال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فلم عدم برداشت کے موضوع پر بنائی گئی ہے اور چند افراد نے اسے دیکھے بغیر ہی اس پر ایک رائے بنالی ہے۔ ’میری خواہش ہے کہ یہ فلم ہر طبقے کے لوگ دیکھیں۔‘

’زندگی تماشا‘ کی کہانی ایک نعت خواں محمد راحت خواجہ کے گرد گھمتی ہے جو ایک قدامت پسند معاشرے کا فرد ہوتے ہوئے بھی پرانے پنجابی فلمی گانوں پر رقص کا شوقین ہے اور ایک روز کسی شادی پر راحت خواجہ کے اس رقص کی ویڈیو بنا کر کسی نے سوشل میڈیا پر ڈال دی جو وائرل ہوگئی۔ بس اس سے راحت خواجہ کی زندگی بدل گئی اور وہ اپنے محلے میں ہی معتوب ہوگیا اور  محلے والے اسے اپنی نفرت کا نشانہ بنانے لگتے ہیں یہاں تک کہ اس کی اپنی بیٹی اور داماد بھی اس کے خلاف ہوجاتے ہیں۔

فلم ’زندگی تماشا‘ کے اداکاروں میں عارف حسن، علی قریشی، عمران کھوسٹ، سمیعہ ممتاز اور ایمان سلیمان شامل ہیں۔ اس فلم میں محمد راحت خواجہ کا کردار عارف حسن نے ادا کیا ہے۔

سرمد کھوسٹ کے ساتھ اس فلم کی شریک پروڈیوسر ان کی بہن کنول کھوسٹ ہیں جب کہ فلم کا سکرپٹ نرمل بانو نے تحریر کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم