امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک مومی عجائب گھر سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مجسمہ نمائش سے ہٹا دیا گیا، جس کی وجہ اس پر سیاحوں کی مکے بازی تھی۔
سان انتونیو، ٹیکساس میں واقع لوئی تساؤ ویکس ورکس کو یہ مجسمہ نمائش سے ہٹا کر ایک سٹور روم منتقل کرنا پڑا کیونکہ میوزیم میں آنے والے چند سیاحوں نے اس کو مکے مارنا شروع کر دیے تھے۔
میوزیم کے مالک اور رپلی انٹرٹینمنٹ کے علاقائی مینیجر کلے سٹیورٹ نے سان انتونیو ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان افراد نے مجسمے کو گھونسے مارے اور سر کھرچ ڈالا اور اس کو اتنا نقصان پہنچایا کہ اسے عوامی نمائش سے ہٹانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب یہ اعلیٰ سیاسی شخصیت ہو تو اس پر حملے ہونا ایک مسئلہ ہو سکتا ہے۔‘
گذشتہ سال امریکی صدارتی انتخابات سے قبل برلن کے مادام تساؤ میوزیم نے صدر ٹرمپ کا مومی مجسمہ ایک کچرا کنڈی میں نصب کر دیا تھا۔ ایسا نومبر کے انتخابات سے وابستہ امیدوں کی عکاسی کے طور پر کیا گیا۔
اس وقت اس میوزیم کے مارکیٹنگ مینیجر اوکیدے یلسنداگ کا کہنا تھا کہ ’مادام تساؤ برلن میں ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مومی مجسمے کو پیشگی اقدامات کے طور پر ہٹایا ہے۔‘
امریکی کیپیٹل ہل پر چھ جنوری کو ہونے والے حملے کے بعد سابق صدر ٹرمپ نے کم ترین مقبولیت کے ساتھ عہدہ صدارت چھوڑا تھا۔ چار سے 15 جنوری کے درمیان ہونے والے ایک گیلپ سروے کے مطابق صرف 34 فیصد امریکیوں نے ان کی بطور صدر حمایت کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنی مدت صدارت میں ان کی مقبولیت کی اوسط شرح 41.1 فیصد تھی جو کہ گیلپ سروے کے آغاز سے کسی بھی امریکی صدر کے مقابلے میں چار پوائنٹس کم تھی۔
گیلپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ 1938 میں صدارتی مقبولیت کے سروے کے آغاز سے اب تک ٹرمپ وہ واحد صدر رہے، جو اپنی مدت صدارت میں کبھی بھی 50 فیصد مقبولیت کی شرح حاصل نہیں کر سکے۔
جب کہ پیو ریسرچ سینٹر کے ایک سروے کا بھی کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی مدت صدارت میں کم ترین شرح مقبولیت کے ساتھ وائٹ ہاؤس چھوڑا، جو کہ محض 29 فیصد تھی۔
یہ سروے آٹھ سے 12 جنوری کے درمیان کیا گیا اور اس میں شرکت کرنے والے 68 فیصد امریکیوں کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کو کئی سال تک قومی سیاست میں کسی بڑے عہدے پر نہیں رہنا چاہیے۔
© The Independent