چیئرمین سینیٹ الیکشن کو عدالت میں چیلنج کرنے کے لیے درخواست تیار

سینیٹر نیئر بخاری کے مطابق پی پی پی پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کرے گی کہ پریزائیڈنگ افسر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تمام مسترد شدہ ووٹ شامل کیے جائیں۔

پی پی پی کے سینیٹر اور سابق سینیٹ چیئرمین نیر بخاری  کے مطابق چیئرمین سینیٹ الیکشن کا معاملہ عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے(اے ایف پی)

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے 12 مارچ کو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں اپنے امیدوار کی شکست کے بعد اس الیکشن کوعدالت میں چیلنج کرنے کے لیے درخواست تیار کر لی ہے۔

چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے چند سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے تھی کہ یہ پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے لہٰذا اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ کیا یہ معاملہ عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے یا نہیں؟ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے جاننے کی کوشش کی ہے۔

پی پی پی کے سینیٹر اور سابق سینیٹ چیئرمین نیر بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نہ صرف یہ معاملہ چیلنج ہو سکتا ہے بلکہ ان کی پارٹی اسے پیر کی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ لے جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک چیئرمین سینیٹ کی تعیناتی نہ ہو یہ پارلیمان کا اندرونی معاملہ نہیں، یہ ایک انتخابی عمل ہے جس میں کسی بھی بے ضابطگی کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سینیٹ سے ریکارڈ حاصل کر لیا گیا ہے، صرف مسترد شدہ بیلٹ پیپرز کا ریکارڈ نہیں ملا، جس کے لیے درخواست میں ہی عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ سینیٹ سکریٹریٹ کو حکم دے کر متعلقہ ریکارڈ پیش کرے۔

انہوں نے درخواست میں موقف کے حوالے سے بتایا کہ یوسف رضا گیلانی کے ووٹ حکومتی اتحاد کے فاتح امیدوار صادق سنجرانی سے زیادہ ہیں اور جو ووٹ مسترد کیے گئے اُس میں ووٹر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینا چاہتے تھے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ پریزائیڈنگ افسر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تمام  مسترد شدہ ووٹ شامل کیے جائیں اور اُنہیں کے تحت چیئرمین سینیٹ کا چناؤ کیا جائے۔

لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے سابق جج شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اسے ’بہت تکنیکی معاملہ‘ قرار دیا اور بتایا کہ آئین کا آرٹیکل 69 کہتا ہے کہ ایوان میں جو معاملہ زیر بحث ہے، اس پر کسی عدالت میں سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’تاہم بزنس آف ہاؤس مختلف معاملہ ہے، یہ شق تب قابل عمل ہو گی جب چیئرمین سینیٹ بن چکا ہو یا موجود ہو لیکن جب چیئرمین سینیٹ بنا ہی نہیں تو یہ بزنس آف ہاؤس نہیں ہو گا۔

’ہاؤس مکمل کرنے کا عمل ابھی چل رہا ہے لہٰذا اس پر آرٹیکل 69 لاگو نہیں ہو گا۔‘

انہوں نے کہا کہ اصولی طور پر باقی انتخابات میں ووٹر کی نیت کو دیکھا جاتا ہے اور اس حوالے سے عدالتوں کے فیصلے بھی موجود ہیں۔ ’جس خانے میں مہر لگی ہے وہ نام یوسف رضا گیلانی کا ہے تو وہ اُن کا ہی ووٹ ہو گا۔‘

بظاہر عددی تعداد میں یوسف رضا گیلانی جیت رہے ہیں تو اس کا فیصلہ اب ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کے تحت ہی کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس معاملے کی آئین میں تشریح نہ ملے وہ معاملہ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ یا  آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتا ہے تاکہ عدالت اُس کی تشریح کر سکے جو آئندہ بھی حوالے کے لیے استعمال ہو گا۔

شاہ خاور نے کہا عدالت پہلے درخواست کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کرے گی، جس کے بعد عدالت مزید فیصلہ کرے گی۔

’اگر عدالت پریزائیڈنگ افسر کی رولنگ کو کالعدم کرتے ہوئے مسترد ووٹ کو ووٹر کی نیت پر فیصلہ کرے تو یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو سکتے ہیں۔‘ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ ایسی صورت میں عدالت جا کر کیس کتنا مضبوط یا کمزور ہو گا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق جج شاہ خاور نے کہا کہ یہ ایک اچھا کیس ہے کیونکہ اس نوعیت کا کیس پہلے کبھی نہیں ہوا کہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کا معاملہ چیلنج ہو یا اُس پر تخفظات ہوں، اس لیے جب یہ کیس ہو گا تو جہاں قانون خاموش ہے عدالت اُس کی تشریح بھی کر دے گی۔

اپوزیشن کی جانب سے سات مسترد ووٹ چیلنج ہونے کی صورت میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے چناؤ پر کیا اثر پڑ سکتا ہے کیونکہ اس صورت میں سینیٹرز کا ذاتی انتخاب ظاہر ہوتا ہے؟ ایوان میں حکومت کے 48 ووٹ تھے جبکہ اپوزیشن کے 50 ووٹ۔ چیئرمین سینیٹ 48 جبکہ ڈپٹی چیئرمین 54 ووٹ لے کر جیتے۔ اس کا مطلب ہے کہ چیئرمین کے الیکشن میں جو سات ووٹ مسترد ہوئے انہی میں سے چھ نے حکومتی نمائندے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ووٹ دیا۔

اس سوال کے جواب میں جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما اور قانونی ماہر کامران مرتضیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا معاملہ الگ ہے۔ ’اُس پر چیئرمین سینیٹ کے انتخابات چیلنج کرنا اثر انداز نہیں ہو گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے مولانا غفور حیدری کا نام دیا گیا تھا اور اُن کی شکست ہم تسلیم کر چکے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان