فیکٹ چیک: کیا سوشل میڈیا پر وائرل تصاویر واقعی لاپتہ افراد کی ہیں؟

سوشل میڈیا پر گذشتہ تین دنوں سے کچھ لوگوں کی تصاویر گردش ہو رہی ہیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ جبری طور پر لاپتہ افراد ہیں جنہیں اب پشاور جیل منتقل کیا گیا، لیکن اس دعوے میں کتنی سچائی ہے؟

(تصاویرسوشل میڈیا)

سوشل میڈیا پر گذشتہ تین دنوں سے چند تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں نظر آنے والے افراد نے اپنے نام اور ولدیت کی سلیٹ اٹھا رکھی ہے۔

یہ تصاویر تب وائرل ہوئیں جب انہیں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما فضل خان ایڈوکیٹ نے اپنے ویریفائیڈ فیس بک اکاؤنٹ سے پوسٹ کیا۔ اب ہزاروں فیس بک صارفین ان تصاویر کو شیئر کر رہے ہیں۔

فضل خان نے تقریباً 45 افراد کی تصاویر پوسٹ کی ہیں جن کے ساتھ کیپشن میں لکھا کہ ’یہ پاکستان کے ریاستی اداروں کی جانب سے لاپتہ کیے گئے افراد ہیں جن کو پشاور سینٹرل جیل متنقل کیا گیا ہے۔‘

فضل خان ایڈوکیٹ نے مزید لکھا: ’ریاستی اداروں نے مختلف حراستی مراکز سے لاپتہ افراد سینٹرل جیل پشاور منتقل کیے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ادارے مسلسل ان لاپتہ افراد کے اپنے حراست میں ہونے سے انکار کرتے رہے۔ لواحقین جلد از جلد سینٹرل جیل پشاور کی انتظامیہ سے رابطہ کریں اور ضمانت کا بندوبست کریں۔‘

اسی طرح ٹوئٹر پر بھی مختلف صارفین یہی تصاویر انہی الفاظ کے ساتھ شیئر کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر ان تصاویر کے پیچھے کہانی کیا ہے۔

اس حوالے سے ہم نے سب سے پہلے فیس بک پر سرچ کر کے معلوم کیا کہ یہ تقریباً 103 افراد کی تصاویر ہیں جو ایک ہی طریقے سے لی گئیں اور ان میں ہر ایک نے ایک سلیٹ پکڑ رکھی ہے اور ان پر نام اور ولدیت درج ہے۔

انہی تصایر میں سے ایک صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے محمد الیاس کے بھائی ہیں جو اب لاپتہ نہیں اور اہل خانہ ان سے رابطے میں ہیں۔

الیاس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان میں سے ایک ان کا بھائی ہیں، جو 13 سال پہلے مدرسے میں پڑھتت تھے اور شک کی بنیاد پر ان کو پکڑا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی پر فوجی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حراست میں لینے کے کچھ عرصے تک ان سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا لیکن بعد میں کئی مرتبہ ان سے ملاقات ہوئی۔

الیاس بتاتے ہیں کہ ’فوجی عدالت نے جب انہیں سزا سنائی تو ہم نے پشاور ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف درخواست جمع کرائی، جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے ان کو بری کر دیا۔ تاہم حکومت نے سپریم کورٹ میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی جو اب بھی زیر سماعت ہے۔‘

شبیر حسین گگیانی پشاور ہائی کورٹ کے وکیل اور فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ بہت سے ملزمان کے وکیل ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جو تصاویر سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں یہ افراد بالکل لاپتہ نہیں بلکہ ان کے مقدمات پشاور ہائی کورٹ میں چل رہے ہیں۔ ’ان کو صوبے کی مختلف جیلوں سے پشاور سینٹرل جیل منتقل کیا گیا ہے۔‘

گگیانی نے بتایا کہ ’فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ ان ملزمان کو پشاور ہائی کورٹ نے بری  کر دیا تھا۔ تاہم حکومت نے ان کی بریت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے اور بریت کا فیصلہ معطل کیا گیا ہے۔‘

فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ افراد اور پشاور ہائی کورٹ میں اپیل کی اب کیا صورتحال ہے؟ فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ ان ملزمان کی تعداد تقریباً 300 ہے، جنہوں نے سزاؤں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

جون 2020 کو پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ملوث ان ملزمان کی سزائیں معطل کر کے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

ان ملزمان میں سزائے موت، عمر قید، پانچ سال کی سزا اور 10 سال تک قید کی سزا پانے والے ملزمان شامل ہیں، جن پر ملک میں مختلف جگہوں پر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات تھے۔

پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جون 2020 میں 300 ملزمان کی اپیلوں پر سماعت کی تھی۔

ملزمان کے وکلا میں شامل علی گوہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس وقت بتایا تھا کہ نومبر 2018 میں ان سزاؤں کو پشاور ہائی کورٹ نے معطل کر دیا تھا۔ تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

اپیل دائر ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے سزاؤں کی معطلی پر عمل درآمد روکتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کو حکم دیا تھا کہ سزاؤں کے خلاف اپیلوں کو دوبارہ دیکھا جائے اور حکومت سمیت کیس میں دیگر فریقین کو سننے کا موقع دیا جائے۔

اس کے بعد 2019 میں وفاقی اور صوبائی حکومت نے مارچ 2019 میں سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کو ان سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت سے روکا جائے۔ تاہم سپریم کورٹ کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ قانونی طور پر سپریم کورٹ ایسا نہیں کر سکتی۔

اور یوں جون 2020 میں ان سزاؤں کو پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے معطل کیا گیا۔ تاہم حکومت کی جانب سے دوبارہ اس معطلی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جو ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

ان اپیلوں کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ میں 16 مارچ، 2021 کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے  ملزمان کی سزاؤں کی معطلی کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں اس لیے پشاور ہائی کورٹ میں ان اپیلوں کی سماعت روک دی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں بتایا کہ جب تک سپریم کورٹ کے سامنے ان سزاؤں کے معطلی کے خلاف اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ نہیں آتا تب تک پشاور ہائی کورٹ میں باقی ماندہ افراد کی سزاؤں کے خلاف اپیل پر سماعت ملتوی ہوگی۔

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل علی گوہر درانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس بات کی تصدیق کی کہ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی تصاویر فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ افراد کی ہیں جن کو پشاور جیل منتقل کیا گیا ہے۔

علی سے جب پوچھا گیا کہ ان کو کس مقصد کے لیے پشاور سینٹرل جیل منتقل کیا  گیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پشاور سینٹرل جیل محفوظ ترین جیل ہے اور کسی بھی عدالت سے سزا یافتہ مجرم کو جیل ہی میں قانونی طور پر منتقل کیا جائے گا۔

فضل ایڈوکیٹ نے اس فیس بک پوسٹ کے حوالے سے بتایا کہ یہ افراد کئی سالوں تک لاپتہ تھے اور اب ان کو خیبر پختونخوا کی مختلف جیلوں کے حوالے کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ ایک جواز بنتا ہے کہ یہ فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں تاہم ان میں اب بھی کچھ ایسے ہیں جن کے خاندان والوں کو پتہ نہیں ہے کہ یہ فوجی عدالت سے سزا یافتہ ہیں۔

’میری پوسٹ کا مقصد ہی یہی تھا کہ جو بھی فرد چاہے وہ جہاں پر بھی ہو لیکن اگر ان کے گھر والوں کو پتہ نہ ہو تو لاپتہ تصور کیا جاتا ہے۔‘

اس سارے معاملے سے واضح ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی تصاویر لاپتہ افراد کی نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں اور ان سزاؤں کے خلاف ان کی دائر اپیلوں کی سماعت سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ