ملک مکمل لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا: وزیر اعظم

وزیر اعظم عمران خان نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کووڈ 19 سے متعلقہ ایس او پیز پر سختی سے عمل کریں کیونکہ ملک مکمل طور پر لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

(عمران خان آفیشل فیس بک)

وزیر اعظم عمران خان نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کووڈ 19 سے متعلقہ ایس او پیز پر سختی سے عمل کریں کیونکہ ملک مکمل طور پر لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

اتوار کو اپنے ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی تیسری لہر گذشتہ لہروں کی نسبت زیادہ خطرناک ہے اس لیے ہمیں ماسک پہننے اور اجتماعات سے اجتناب کرنے سمیت دیگر ایس او پیز پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہئے جیسا کہ ہم ماضی میں کیا کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وبا کی تیسری لہر کی وجہ سے  کرونا کے مریضوں کی تعداد بہت تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ وہ اور ان کی اہلیہ کرونا کی آزمائش سے گزر رہے ہیں لیکن اللہ تعالی کے فضل و کرم سے وہ محفوظ رہے۔

وزیر اعظم نے مزید کہا: ’میں نے ایک پورے سال احتیاط کی۔ اس دوران میں کسی شادی یا کھانے کے لیے کسی ریستوراں نہیں گیا۔ میں نے سماجی دوری کو اپنایا اور زیادہ تر ماسک پہنے رکھا۔ مییں ان لوگوں میں شامل تھا جو پہلی دو لہروں میں محفوظ رہے لیکن سینیٹ انتخابات کے دوران اتنی احتیاط نہیں کی تھی اور اس وجہ سے اس وبا میں مبتلا ہو گیا۔

انہوں نے کہا کہ آج جتنی حفاظتی اقدامات اور احتیاطی تدابیر اپنانے کی ضرورت اتنی اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔

’تیسری لہر پہلی دو سے کہیں زیادہ شدید ہے۔ میں آپ سب کو انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ آپ سب ماسک پہنیں اور دوسروں کو بھی اسے پہننے کی تلقین کریں۔‘

وزیر اعظم عمران خان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’سب سے پہلے آپ کو ماسک پہننا ہے۔ یہ پوری دنیا میں ثابت ہوچکا ہے کہ ماسک پہننے سے آپ کو کرونا وائرس لگنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’دوسری بات یہ ہے کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان کے پاس مکمل لاک ڈاؤن اور لوگوں کو کھانا کھلانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان سے بہت بہتر اور امیر ملکوں میں بھی ایسا کرنے کے وسائل نہیں ہیں۔‘

انہوں نے اعتراف کیا کہ اس صورت حال میں ملک کو بند کرنا بہتر ہو گا لیکن ہم حالات کو دیکھتے ہوئے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ماسک پہننے جیسے حفاظتی اقدامات پر عمل کریں۔

انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا: ’مجھے ڈر ہے کہ تیسری پیک جو آنے والی ہے وہ پہلی دو پیکس سے بھی بدتر ہوگی۔‘

انہوں نے کہا: ’ہمارے ہسپتال پہلے ہی سے بھرے ہوئے ہیں اور ان پر مزید دباؤ بڑھ رہا ہے۔ خاص طور پر برطانیہ سے آنے والے افراد وائرس کی نئی قسم لاہور ، اسلام آباد اور پشاور لائے ہیں، یہ وہ مقامات ہیں جہاں کیسز میں تیزی سے اضافے کا مشاہدہ کررہے ہیں۔‘

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اب زیادہ سے زیادہ لوگوں کو وینٹی لیٹرز اور آکسیجن پر ڈالا جارہا ہے۔

انہوں نے قوم سے مطالبہ کیا کہ وہ اسی طرح کی احتیاط برتیں جو انہوں نے پہلی لہر کے دوران اپنائی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ’پوری دنیا میں ہماری مثال دی جاتی تھی کہ ہم نے اس وقت بیشتر ممالک کے مقابلے میں اس صورتحال سے بہت بہتر طور پر مقابلہ کیا تھا۔‘

’مجھے معلوم ہے کہ ایک سال ہو گیا ہے اور لوگ مزید احتیاط سے کام نہیں لے رہے ہیں لیکن میں آپ کو ایک بار پھر یہ کہوں گا خدا نہ کرے اگر یہ وبا اسی شرح سے پھیلتی رہی تو ہمارے تمام ہسپتال پوری طرح سے بھر جائیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ویکسین کی کمی ہے اور پاکستان کو وعدوں کے مطابق بھی ویکسین کی فراہمی میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ان کی تیاری کرنے والے ممالک میں ویکسین کی کمی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ عوام کو سمجھنا چاہئے کہ فیکٹریاں اور کاروبار بند نہیں ہوسکتے ہیں لہذا انہیں انفرادی سطح پر ایسی تمام سرگرمیوں سے گریز کرنا چاہئے جو وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتی ہیں۔

قبل ازیں سیالکوٹ سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے معاون خصوصی وزیر اعلی پنجاب فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ پنجاب بھر میں 14 روز کے لیے لاک ڈاؤن لگایا جا سکتا ہے، پنجاب میں کرونا کی صورتحال خراب ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماسک پہننا صوبہ بھر میں لازمی ہے اور ماسک نہ پہننے پر جرمانہ یا چھ ماہ کی سزا دی جا سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ این سی او سی نے شادی ہالوں پر پانچ اپریل سے عید تک مکمل پابندی کی تجویز دی ہے نیز بازاروں کی بندش یا کھلے رہنے کے حوالے سے فیصلے کل متوقع ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹر سٹی ٹرانسپورٹیشن میں  پچاس فیصد سیٹوں کو کم جائے گا تاکہ صوبے بھر میں رمضان کے دوران کرونا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

وزارت صحت پنجاب کی جانب سے بھی چودہ روز کے لاک ڈاؤن کی تجویز دی گئی ہے۔

این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ پابندیاں مزید سخت کرنے پر غور کیا جا رہا ہے نیز عوام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے انتظامیہ سے تعاون کریں۔ 

بعد ازاں این سی او سی کی پریس ریلیز میں پانچ اپریل سے انڈور یا آؤٹ ڈور شادیوں پر مکمل پابندی کا اعلان کر دیا گیا۔

دوسری جانب مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز شریف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی طبیعت ناساز ہونے کے بعد انہوں نے سیاسی سرگرمیاں چند روز کے لیے معطل کردی ہیں۔

ٹوئٹر پر ایک پیغام میں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے بتایا کہ مریم نواز نے طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے آئندہ چار روز کے لیے اپنی سیاسی سرگرمیاں منسوخ کردی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کی نائب صدر کو تیز بخار اور گلے میں شدید درد ہے۔

مریم اورنگزیب نے بتایا کہ مریم نواز شریف کا کرونا کا ٹیسٹ بھی کروایا گیا ہے جس کی رپورٹ کا اتنظار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں نے مریم نواز کو آرام کا مشورہ دیا ہے جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیاں چند روز کے لیے منسوخ کردیں۔

پارٹی ترجمان نے بتایا کہ مریم نواز طبعیت کی ناسازی کے باوجود لاہور ہائی کورٹ گئیں تھیں۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی طبیعت بھی میڈیا اطلاعات کے مطابق ناساز ہے۔

اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمن دو روز سے بخار میں مبتلا ہیں اور ڈیرہ اسمعیل خان میں اپنی رہائش گاہ پر موجود ہیں۔

میڈیا ترجمان کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کا کرونا ٹسیٹ منفی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن نے طبعیت کی ناسازی کی وجہ سے سیاسی سرگرمیاں معطل کردی ہیں نیز سربراہ پی ڈی ایم کو ڈاکٹرز نے مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں جاری کرونا کی تیسری لہر کو سربراہ این سی او سی اسد عمر سمیت ماہرین پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک قرار دے رہے ہیں اور صوبائی حکومتوں کو مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے بارے میں بھی تجاویز موصول ہوئی ہیں۔

گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران پاکستان میں کرونا سے مزید 57 افراد انتقال کر چکے ہیں اور 4767 سے زائد کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں جو نو ماہ بعد ایک ہی روز میں رپورٹ ہونے والے سب سے زیادہ کیسز ہیں۔

پاکستان میں کرونا کے اعداد و شمار بتانے والی ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کرونا کے 45656 ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے 4767 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی جب کہ وائرس سے 57 ہلاکتیں ہوئیں۔

پاکستان میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران رپورٹ ہونے والے کیسز گزشتہ سال کرونا کی پہلی لہر میں 21 جون کے بعد سامنے آنے والے سب سے زیادہ کیسز ہیں۔

گزشتہ سال 21 جون کو کرونا کی پہلی لہر کے دوران ایک دن میں کرونا کے 4951 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جب کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 4767 کیسز سامنے آئے جو نو ماہ کے بعد ایک روز میں سامنے آنے والے سب سے زیادہ کیسز ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان