امریکہ: پاکستانی اوبر ڈرائیور کی ہلاکت میں ملوث دو لڑکیاں زیرحراست

ایک راہگیر کی جانب سے بنائی جانے والی اس فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انور ڈرائیور کے دروازے پر کھڑے ہیں اور کار میں بیٹھے افراد سے بحث کر رہے ہیں۔

(گو فنڈ می پیج)

امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مشتبہ گاڑی چوری کے واقعے میں تین بچوں کے والد اور اوبر ایٹس کے ڈرائیور محمد انور ہلاک ہوگئے ہیں۔

66 سالہ محمد انور کی ہلاکت منگل کو ہوئی تھی۔ اس واقعے کی دل دہلا دینے والی فوٹیج میں محمد انور کو اپنی گاڑی کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں مشتبہ لڑکیاں ان کی گاڑی کی رفتار بڑھاتے ہوئے انہیں گاڑی کے ساتھ گھسیٹتے لاجاتی ہیں اور وہ ایک باڑ سے ٹکرا جاتے ہیں۔

یہ گاڑی گلی میں تیز رفتاری سے بھاگتے ہوئے الٹ گئی اور محمد انور اس سے نکل کر قریبی فٹ پاتھ پر جا گرے۔ فوٹیج میں ایک شخص کو اوندھے منہ فٹ پاتھ پر ساکت لیٹے دیکھا جا سکتا ہے۔

محمد انور اس واقعے کے بعد ہسپتال میں چل بسے۔ ان کے جسم کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئیں تھیں اور انہیں سر میں شدید چوٹ آئی تھی۔ حملے کے وقت وہ کھانا ڈیلیوری کا کام کر رہے تھے۔

ایک راہ گیر کی جانب سے بنائی جانے والی اس فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انور ڈرائیور کے دروازے پر کھڑے ہیں اور کار میں بیٹھے افراد سے بحث کر رہے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان نے انور پر ٹیزر (بجلی کا جھٹکا مارنے والا آلہ) استعمال کیا تھا۔

ویڈیو میں محمد انور کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’یہ چور ہیں۔ یہ میری گاڑی ہے۔‘ وہ یہ کہتے ہوئے گاڑی کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

حادثے کے بعد فوٹیج میں کار چوری کرنے والی ایک لڑکی کو الٹی ہوئے گاڑی سے چھلانگ لگا کر باہر نکلتے دیکھا جا سکتا ہے۔

جائے وقوعہ کے قریب موجود نیشنل گارڈز کے ارکان نے ملزمان کو فرار ہونے سے قبل حراست میں لے لیا اور پولیس کے آنے تک انہیں زیر حراست رکھا۔

میٹرو پولیٹین پولیس ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ کار چوری کرنے والی مشتبہ ملزمان میں ایک جنوبی ڈی سی کی 13 سالہ لڑکی اور فورٹ واشنگٹن میری لینڈ سے تعلق رکھنے والی 15 سالہ لڑکی شامل ہیں۔ دونوں لڑکیوں کے کم عمر ہونے کی وجہ سے ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

دونوں لڑکیوں پر سنگین جرائم یعنی قتل اور کار چوری کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد انور کے اہل خانہ نے ’ڈبلیو یو ایس اے نائن‘ نامی چینل کو بتایا کہ محمد انور نے سال 2014 میں پاکستان سے امریکہ نقل مکانی کی تھی اور وہ اپنی اہلیہ، بچوں اور چار پوتے پوتیوں کی کفالت کے لیے فوڈ ڈیلیوری کا کام کرتے تھے۔ 

محمد انور کے رشتہ داروں کا ایک بیان میں کہنا تھا: ’اہل خانہ اس بہیمانہ جرم سے دل شکستہ ہو چکے ہیں۔ محمد انور ایک والد تھے، ایک دادا تھے ایک شوہر، ایک بھائی اور ایک چچا تھے جو اپنی جائے پیدائش پاکستان اور امریکہ میں موجود کئی افراد کو بہت پیارے تھے۔‘

واقعے میں ملوث لڑکیوں کو عدالت میں ابتدائی تفتیش کے لیے پیش کیا گیا۔ عدالت کی کارروائی کے دوران جج نے ریمارکس دیے کہ یہ دونوں معاشرے کے لیے خطرہ ہیں اور فلائٹ رسک ثابت ہو سکتی ہیں۔ دونوں ملزمان کو 31 مارچ تک کی اگلی سماعت تک زیر حراست رکھا جائے گا۔

محمد انور کی بھتیجی نے اپنے چچا کی اسلامی روایات کے مطابق تدفین کے اخراجات کے لیے گو فنڈ می کی ایک مہم بھی شروع کر دی ہے۔

اتوار تک گو فنڈ می کی اس مہم میں چار لاکھ تیس ہزار ڈالر کی رقم جمع ہو چکی تھی جبکہ اہل خانہ نے اس کا ابتدائی ہدف ایک لاکھ ڈالر رکھا تھا۔

اس مہم کے عنوان میں لہرا بوگینو نے لکھا:  ’الفاظ بیان نہیں کر سکتے کہ ہمارے خاندان پر اس وقت کیا گزر رہی ہے۔ اداسی، تذبذب، حیرانی، غصہ، دل شکستگی اور لاچارگی وہ چند الفاظ ہیں جو ذہن میں آتے ہیں۔ ہم انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ لیکن یہ انہیں اس درد ناک انداز میں اتنے جلدی اور اچانک کھونے کا غم کم نہیں کر سکتا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا