جب ہم نے ڈائری لکھنا شروع کی

ہمیں احساس ہوا کہ ہم جو خود کو ایک مضبوط انسان سمجھتے ہیں، اصل میں اتنے مضبوط نہیں ہیں۔ ہمارے بھی کچھ مسائل ہیں۔

(پکسا بے)

ہمیں ڈائری لکھنا کبھی سمجھ میں نہیں آیا۔ پہلے ڈائری خریدو، پھر اس میں اپنے احساسات لکھو اور پھر اس ڈائری کو خود سے اور دوسروں سے چھپاتے پھرو۔ دیسی گھروں میں انسان کو ویسے بھی خلوت یا پرائیویسی کچھ زیادہ میسر نہیں آتی۔ ہمارے والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو شیر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بند کمرے میں کیا ہو رہا ہے، کتابوں کے اندر کیا چھپا کر پڑھا جا رہا ہے، رات دیر تک موبائل فون پر کس سے باتیں ہو رہی ہیں؟

ان حالات میں انسان ڈائری بھی رکھ لے تو اس کا حساب کتاب بھی شروع ہو جاتا ہے۔

اس کے باوجود ڈائری لکھنا اچھی عادت ہے۔ یہ ہمیں پچھلے سال ستمبر میں پتہ چلا جب ہم نے ایک ورک شاپ کے دوران ڈائری لکھنا شروع کی۔ ہم تین مہینے تو روزانہ ڈائری لکھتے رہے، پھر یہ سلسلہ ہفتہ وار ہو گیا اور اب تک ایسے ہی چل رہا ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ ڈاکٹر خالد سہیل جو کینیڈا میں بطور نفسیات دان اپنا کلینک چلاتے ہیں، ایک ورک شاپ کے لیے رضاکار ڈھونڈ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نفسیات دان ہونے کے علاوہ شاعر اور ادیب بھی ہیں۔ ان کے اردو بلاگ کافی پڑھے جاتے ہیں۔ ایک بلاگ میں انہوں نے اپنے قارئین سے اس پروگرام میں شرکت کرنے کی درخواست کی تھی۔ ہم نے بھی درخواست جمع کروا دی جو خوش قسمتی سے قبول بھی کر لی گئی۔ یہ سات ہفتے کا پروگرام تھا جس میں ہم 12 افراد ڈاکٹر صاحب اور ان کی ٹیم کے ساتھ ہفتہ وار زوم سیشن میں حصہ لیتے تھے۔

ڈاکٹر صاحب کی ایک ’گرین زون‘ تھیوری ہے۔ اس تھیوری کے مطابق انسان کے نفسیاتی طور پر تین زون ہوتے ہیں، ایک سبز، ایک پیلا اور ایک سرخ۔ سبز زون میں انسان خوش و خرم اور مطمئن ہوتا ہے، زرد زون میں وہ اضطراب کا شکار ہوتا ہے، اور سرخ زون میں وہ اپنے اوپر قابو نہیں رکھ پاتا، رونا، چیخنا چلانا اور مارنا پیٹنا شروع کر دیتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم اس ورک شاپ میں خود کو زیادہ سے زیادہ گرین زون میں رکھنا سیکھ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس دوران ہمیں ایک ڈائری لکھنے کا کہا۔ اس ڈائری میں ہم دن کے مختلف اوقات میں اپنے رویوں کا جائزہ لیتے تھے اور ان کے سبز، زرد یا سرخ ہونے کا فیصلہ کرتے تھے۔ اس کے بعد ہم دیکھتے تھے کہ روزانہ ہم نے کتنے گھنٹے کس زون میں گزارے۔ اس سے ہمیں پتہ چلا کہ ہم جو خود کو ایک ہنستا مسکراتا انسان سمجھتے ہیں، اصل میں ویسے نہیں ہیں۔ ہم دن کے 24 گھنٹوں میں سے محض چار سے پانچ گھنٹے گرین زون میں ہوتے تھے، بقیہ دن یا تو ییلو زون میں گزرتا تھا یا ریڈ زون میں۔

ہر ہفتے ہماری ڈائری میں کسی نئی چیز کا اضافہ ہو جاتا تھا۔ دو ہفتے بعد ہمیں کہا گیا کہ ہم اپنے زون کی تبدیلی کی وجہ تلاش کریں۔ ایسی کون سی بات ہے جو ہمیں گرین زون سے ییلو اور وہاں سے ریڈ زون میں لے جاتی ہے۔ اسی طرح کس چیز سے ہم ریڈ زون سے نکل کر ییلو زون میں آتے ہیں اور وہاں سے گرین زون میں۔ یہ بہت مشکل کام تھا۔ شروع میں تو کچھ سمجھ نہیں آتا تھا لیکن آہستہ آہستہ ہم ان وجوہات کی نشاندہی کرنے لگے۔ اس سے ہمیں اپنے زون کو بہتر کرنے میں بہت مدد ملی۔

اس کے اگلے ہفتے ڈاکٹر صاحب نے ہمیں ایک نیا نظریہ بتایا، ’جذباتی چھتری‘ کا نظریہ۔ انہوں نے کہا آپ  جب بھی محسوس کریں کہ آپ کا زون تبدیل ہونے والا ہے تو اس چھتری کا سہارا لیں۔ مثال کے طور پر بعض لوگوں کے لیے انکار کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ ان کے اردگرد کے لوگ ان کے ذمے کوئی ایسا کام لگا دیتے ہیں جو وہ نہیں کرنا چاہتے پر صاف صاف انکار بھی نہیں کر پاتے۔ اس کا نتیجہ انہیں اپنے زون کی تبدیلی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے بتایا ایسی صورتوں میں آپ جذباتی چھتری کا سہارا لے سکتے ہیں۔ یہی مثال لے لیں تو اس میں جذباتی چھتری بس ایک جملہ ہو سکتا ہے کہ میں آپ کو کچھ دیر میں جواب دیتی ہوں۔ اس طرح انسان کو سوچنے کا وقت مل جاتا ہے اور پھر وہ آسانی سے اس کام کو کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

ہم یہیں آ کر رک گئے۔ پڑھنے میں شاید یہ بہت آسان لگ رہا ہو پر کرنے میں بہت مشکل تھا۔ ہم نے اپنے لیے جذباتی چھتری ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی، پر ہمیں کوئی چھتری نہیں ملی۔ ہمارا ہر مسئلہ دوسرے سے مختلف تھا۔ ہمیں اپنے ہر مسئلے کے لیے ایک الگ جذباتی چھتری کی ضرورت تھی۔ اس وقت ہمیں احساس ہوا کہ ہم جو خود کو ایک مضبوط انسان سمجھتے ہیں، اصل میں اتنے مضبوط نہیں ہیں۔ ہمارے بھی کچھ مسائل ہیں۔ پر اچھی بات یہ تھی کہ ہم ان مسائل کو اس طرح کی ورک شاپس میں حصہ لے کر حل کر رہے تھے۔

ہم نے اس دوران جو ڈائری لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، وہ اب بھی جاری و ساری ہے۔ جب دو تین ہفتوں بعد دل پر بوجھ بہت بڑھ جاتا ہے تو ہم وہ بوجھ اپنی ڈائری میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ہمیں ویسے بھی لکھنا اچھا لگتا ہے۔ یہاں ہم آپ کے لیے لکھتے ہیں، وہاں اپنے لیے لکھتے ہیں۔ ہم چونکہ اکیلے رہتے ہیں تو ہمیں پرائیویسی کا ویسا خطرہ نہیں ہے جیسے پاکستان میں جوائنٹ فیملی میں رہنے والے کسی انسان کو ہو سکتا ہے۔ خیر ڈیجیٹل ڈائری اس سلسلے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

آپ ایک ڈائری اپنے فون یا لیپ ٹاپ میں رکھ سکتے ہیں۔ اپنی وہ باتیں جو آپ کسی سے بھی نہیں کر سکتے وہاں کریں، پھر اس کا اثر دیکھیں۔  بس فون یا لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ اچھا سا رکھیں جو کوئی بُوجھ نہ سکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ