فوج میں ماہرِ نفسیات ہوتا ہے تو کالجوں میں کیوں نہیں؟

استاد کا کام تعلیم دینا ہے جبکہ سائیکولوجسٹ کا کام نفسیاتی مسائل کا حل نکال پر بچوں کی نفسیاتی الجھنوں کو سلجھانا ہے تاکہ ان کے اندر انتہا پسند رویے پروان نہ چڑھیں۔

دنیا میں بہت سے تعلیمی اداروں میں طالب علموں اور اساتذہ سمیت عملے کے لیے سائیکولوجسٹ رکھے جاتے ہیں(پکسا بے)

’اگر فوج میں شعبہ نفسیات ہو سکتا ہے تو ہمارے تعلیمی اداروں میں ماہر نفسیات کیوں نہیں ہوتا، کیا طالب علموں کے مسائل نہیں ہوتے؟‘ یہ سوال مجھ سے ایک طالب علم نے خاصا عرصے قبل پوچھا تھا لیکن آج تک مجھے اس کا جواب نہیں مل سکا۔

کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ نورین لغاری ہوں یا سعد عزیز، خطیب حسین ہو یا پرنسل کو قتل کرنے والا رضوان، انتہا پسند سوچ پروان چڑھنے سے روکنے کے لیے کیا کسی نے کوئی کام کیا؟ کیا اگر ان کے تعلیمی اداروں میں سائیکولوجسٹ ہوتا اور وہ ان سے بات چیت کرتا تو کیا یہ طالب علم شدت پسندی کی جانب راغب ہوتے؟ میرا نہیں خیال۔

سائیکولوجسٹ تو لوگوں کی بات چیت اور اٹھنے بیٹھنے سے شخصیت کا اندازہ لگا لیتا ہے۔ پوری دنیا میں طالب علموں کی کونسلنگ کی جاتی ہے، ان کے مسائل کیمپس کے اندر ہی سنے جاتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جہاں طالب علموں اور اساتذہ سمیت عملے کے لیے سائیکولوجسٹ رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ ان کے نفسیاتی مسائل کا حل کر سکیں۔

کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک وزیر شہریار آفریدی نے کہا تھا کہ اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں ’آئس‘ اور دیگر نشہ آور چیزیں فروخت کی جاتی ہیں۔ یہ بات تو آئی گئی ہو گئی لیکن اس وقت اور آج تک کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ وہ بچے ان ڈرگز کو استعمال کیوں کرتے ہیں، خرابی اور برائی تک پہنچنے سے پہلے اسے روکا کیوں نہیں جاتا؟

عام تاثر یہی ہے کہ اسلام آباد کے پوش علاقوں میں قائم تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچے زندگی کی تمام آسودگیوں کے باوجود منشیات کی جانب صرف ’فیشن‘ یا دیکھا دیکھی راغب ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ نوجوانوں کے مسائل کیا ہوں گے؟ محرومی، رشتوں کے درمیان عدم توازن، والدین کا بچوں سے غافل ہونا، اور پھر سب سے اہم سوشل میڈیا ایج، یہی وجوہات ہمارے طالب علموں کو برائی، نشے اور انتہا پسندی کی جانب لے جا رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، ایک بچہ ہے جس کے والد اور والدہ دونوں نوکری کرتے ہیں، دادا اور دادی یا تو بوڑھے ہیں یا وفات پا چکے ہیں تو وہ بچہ کس سے بات کرے؟ مثال کے طور پر وہ امیر کبیر خاندان سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کے دوست غریب ہیں، اور وہ اسے اپنے گھر کے قصے سناتے ہیں کہ ہمارے گھر میں ایسے ہوتا ہے۔ ہم سارے اکٹھے بیٹھ کر کھاتے ہیں، گاؤں جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ، تو ایک خاص وقت کے بعد اس بچے میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو جائے جو آگے چل کر والدین سے دوری کا باعث بھی بن سکتا ہے اور بغاوت کا باعث بنے گا۔

جب تک مشترکہ خاندانی نظام برقرار تھا تب تک بچے اپنے دادا دادی سے باتیں شیئر کر کے اپنے دل کا بوجھ ختم کر لیتے تھے مگر اب ان کے پاس وہ ذریعہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ اب رشتوں کی جگہ وٹس ایپ، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے لے لی ہے، مگر ان کو بتانے والا کوئی نہیں کہ اس ڈیجیٹل تنہائی سے کیسے نمٹا جائے۔  

ہمارا معاشرہ تبدیل ہو چکا ہے تو ہمیں نئے تقاضوں کے تحت اپنے تعلیمی اداروں میں پروفیشنل ماہرینِ نفسیات تعینات کرنے ہوں گے۔ استاد کا کام تعلیم دینا ہے جبکہ سائیکولوجسٹ کا کام نفسیاتی مسائل کا حل نکال پر بچوں کی نفسیاتی الجھنوں کو سلجھانا ہے تاکہ ان کے اندر انتہا پسند رویے پروان نہ چڑھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس