سائبر کرائمز سے خود کو کیسے محفوظ رکھیں؟

ایک اندازے کے مطابق سائبر کرائمز سےعالمی معیشت کو سالانہ تقریباً 400 ارب ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

سائبر کرائم کا نام آتے ہی ذہن میں اکاؤنٹس کا ہیک ہونا، ذاتی معلومات اور ڈیٹا کی چوری اور سپائی ویئر جیسے خیالات ابھرتے ہیں( اے ایف پی)

دور جدید میں روز مرہ زندگی کی بہت سی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر انحصار ہماری مجبوری بن چکا ہے۔ اپنے پیاروں سے رابطہ ہو یا ٹی وی، معلومات عامہ، تعلیم، کاروبار یا بینکنگ اور ملازمت ہو، بڑی حد تک انٹرنیٹ کی مرہون منت ہے۔

خود کار گاڑیوں سے لے کر آن لائن ہوم سکیورٹی سسٹم تک، ہم ہر معاملے میں ٹیکنالوجی یا سائبر نظام پر انحصار کرتے ہیں۔ ایسے میں جرائم پیشہ عناصر انٹرنیٹ کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے اور روزانہ کی بنیاد پر نت نئے راستے اور فارمولے نکالتے ہیں۔

لوگوں کے پیسے لوٹنا ہو، عزتیں اچھالنی ہوں یا اس جیسے کوئی اور معاملات ہوں۔ اسے سائبر کرائم ہی کہتے ہیں۔

سائبر کرائم یا ڈیجیٹل سکیورٹی بلاشبہ ایک وسیع موضوع ہے مگر سادہ الفاظ میں بیان کریں تو سائبر سکیورٹی سے مراد اپنے موبائل فون، لیپ ٹاپ، بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات، کمپیوٹر میں موجود ڈیٹا، اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ای میل کے پاس ورڈ کی حفاظت کے مختلف طریقے ہیں جن پر عمل کر کے آپ انٹرنیٹ پر اپنی موجودگی کافی حد تک محفوظ بنا سکتے ہیں۔

کبھی کبھار کسی مشہور شخصیت کی تصویر یا ویڈیو لیک ہونے، اکاؤنٹ ہیک ہونے یا کسی بینک سے آن لائن فراڈ کے نتیجے میں بھاری نقصان کی صورت میں یہ معاملہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر آ جاتا ہے مگر ہم جلد ہی سب کچھ بھول کر پھر سے اپنے معمول میں مگن ہو جاتے ہیں۔

سائبر کرائم کا نام آتے ہی ذہن میں اکاؤنٹ کا ہیک ہونا، ذاتی معلومات لیک ہونا، کمپنیوں کے قیمتی ڈیٹا کی چوری اور سپائی ویئر جیسے خیالات ابھرتے ہیں کیونکہ جب بھی ہم آن لائن جاتے ہیں تو ہمیں ان سب خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

روزانہ کئی سائبر حملے ہوتے ہیں اور کوئی بھی شخص سائبر چوری، ہیک یا جرم کا شکار ہوسکتا ہے۔ معروف عالمی برانڈز کی ویب سائٹس کو ہیک کر کے ان کے ڈیٹا بیس میں محفوظ صارفین کی معلومات کو جو کہ عموماً کریڈٹ کارڈ سے متعلق ہوتی ہیں، چوری کر لیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ چھوٹے کاروبار اور تمام صنعتوں میں جدید سٹارٹ اپس کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر کے پاس مناسب ڈیجیٹل سکیورٹی سسٹم موجود نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ دیگر حکومتی ادارے جیسا کہ فوج، دفاعی نظام، حکومتی مالی اور طبی تنظیمیں کثیر تعداد میں اپنا ڈیٹا کمپیوٹروں اور دیگر آلات میں اکٹھا کرتی ہیں اور اس کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اس اعداد و شمار کا ایک اہم حصہ حساس معلومات پر مشتمل ہو سکتا ہے جس تک غیر مجاز رسائی کے منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور ملکی سالمیت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق سائبر کرائم سےعالمی معیشت کو سالانہ تقریباً 400 ارب ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ہر روز سائبر مجرم ان لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جو خریداری، بینکنگ اور آن لائن رقم بھیجتے یا وصول کرتے ہیں۔ تاہم صارفین کی ذاتی معلومات تک رسائی بھی کافی حد تک مقاصد میں شامل ہوتا ہے۔

سائبرحملوں سے بچنے اور انٹرنیٹ پر اپنی موجودگی کو محفوظ بنانے کی لیے سائبر سکیورٹی کے بارے میں علم انتہائی ضروری ہے۔ اس بارے میں آگاہی کا فقدان زیادہ تر لوگوں کو اپنے ذاتی ڈیٹا کو ہیک کرنے کی کوشش کرنے والے افراد کے لیے آسان ہدف بنا دیتا ہے۔

سائبر سکیورٹی کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے ایک سب سے اہم گروپ ہمارے نوجوانوں کا ہے۔

اگرچہ وہ آن لائن خریداری کے لیے آن لائن بینکنگ یا کریڈٹ کارڈ کا استعمال نہیں کرتے، لیکن وہ سائبر مجرموں کے لیے غیرمحفوظ ذاتی اکاؤنٹس تشکیل دے کر ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنا آسان بنا سکتے ہیں۔

درج ذیل سفارشات ایک عام صارف کو سائبرحملوں سے خود کو محفوظ رکھنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔

۔ عوامی مقامات پر فری وائے فائے سے ممکنہ حد تک گریز کریں۔

۔ اپنے موبائل فون لیپ ٹاپ اور ٹیبلیٹس کو ہمیشہ پاس ورڈ کی مدد سے محفوظ رکھیں۔

۔ اپنے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور آن لائن بیکنگ کے لیے ہجوں، نمبروں اور علامتوں کے امتزاج پر مشتمل پاس ورڈ بنائیں۔ ایسے پاس ورڈ مضبوط تصور کیے جاتے ہیں اور عموماً ہیک کرنا مشکل ہوتے ہیں۔

۔ اپنے تمام اکاؤنٹس کے لیے ایک ہی پاس ورڈ رکھنا مناسب عمل نہیں۔ ایک اکاؤنٹ ہیک ہونے کی صورت میں ہیکر کے لیے باقی اکاؤنٹس تک رسائی نہایت آسان ہو جاتی ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ ہر اکاؤنٹ کے لیے مختلف پاس ورڈ استعمال کریں۔

۔ اپنا پاس ورڈ ای میل، چیٹ یا ٹیکسٹ میسج کے ذریعے مت بھیجیں۔ کسی کے ساتھ بھی اپنا پاس ورڈ شیئر نہ کریں۔

۔ ممکن حد تک اپنے آن لائن اکاؤنٹس پر دو قدمی توثیق ترتیب دیں۔ ایسا کرنے سے آپ کی شناخت کی توثیق میں ایک اور مرحلے کا اضافہ ہو جاتا ہے جس سے حملہ آور کے لیے آپ کے ڈیٹا تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے۔

فیس بک، ٹوئٹر، جی میل، واٹس ایپ اور بہت سی دوسری ایپلی کیشنز اپنے صارفین کے لیے دو مرحلوں پر مشتمل توثیق کا عمل ٹو فیکٹر آتھینٹیکیشن متعارف کروا چکی ہیں جنہیں ایپلی کیشن کی سیٹنگز میں جا کر با آسانی ایکٹیویٹ کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

۔ اگر آپ کو ایسی کوئی مشکوک ای میل، میسج یا ویب پیج نظر آئے جہاں آپ کی ذاتی یا مالی معلومات طلب کی جاتی ہیں تو جواب نہ دیں بلکہ فوراً ڈیلیٹ کر دیں۔

۔ کسی مشکوک ای میل یا پوسٹ پر موجود لنکس پر کلک کرنے سے ممکنہ حد تک گریز کریں۔ ایسے لنکس آپ کے اکاؤنٹ یا ڈیوائس کو مفلوج کر کے اس کا کنٹرول ہیکر کو دے دیتے ہیں۔

۔ اپنی پرائیویسی سیٹنگز کو باقاعدگی سے چیک کریں اور اپنی مرضی کے مطابق اس بات کا تعین کریں کہ آپ دوسروں کے ساتھ کس حد تک اپنی معلومات اور شائع شدہ مواد شیئر کرنا چاہتے ہیں۔

۔ اپنی سوشل میڈیا پر موجودگی کو محتاط بنائیں۔اپنے اکاؤنٹ سے کسی بھی قسم کا حساس یا مضر مواد شائع کرنے سے پہلے دو بار سوچیے۔

۔ کسی بھی سافٹ ویئر یا ایپلی کیشن کو انسٹال کرتے وقت، یقینی بنائیں کہ آپ اسے قابل اعتماد ذریعہ سے حاصل کر رہے ہیں۔

اسی طرح آپ اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ آیا مذکورہ ایپلی کیشن گوگل پلے سے تصدیق شدہ ہے یا نہیں۔ غیرتصدیق شدہ ایپلی کیشنز کو انسٹال کرنے سے گریز کریں۔

۔ اپنے موبائل فون لیپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ میں انسٹال شدہ ایپلی کیشنز کو باقاعدہ سے اپ ڈیٹ کریں۔ ایپ تخلیق کار ایپس کو بہتر بنانے پر مسلسل کام کرتے رہتے ہیں جس کا مقصد جدید ترین فیچرز متعارف کروانا اور سکیورٹی کو بہتر بنانا ہے۔ ایپلی کیشن کے نئے ورژن پرانے ورژن سے نسبتاً محفوظ ہوتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی