لگتا تھا لیگی قیادت وقت ضائع کیے بغیرجیل پہنچنا چاہتی ہو

نواز شریف کے جاتی امرا سے کوٹ لکھپت جیل جانے کے سفر کا احوال۔

اے ایف پی فوٹو

جاتی امرا میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی رہائش گاہ پر افطار سے قبل پہنچے تو دیکھا کہ دو کلومیٹر دور ہی سڑک کے اطراف پاکستان مسلم لیگ ن کے مختلف رہنماؤں کے بینروں سے مزین استقبالی کیمپ لگے ہیں، جن میں میزوں پر پھولوں کی پتیوں سے بھرے تھیلے رکھے تھے۔

 سڑک کے کنارے بڑی تعداد میں گاڑیاں موجود تھیں اور کارکن ٹولیوں کی شکل میں بعض گاڑیوں پر لگے ساؤنڈ سسٹم پر گونجتے پارٹی ترانوں پر ہلکا پھلکا رقص کر رہے تھے جبکہ سینیئر پارٹی رہنما خواجہ آصف، مشاہد اللہ خان، ایاز صادق، رانا ثناء اللہ اور دیگر رہنما جاتی امرا کے مرکزی دروازے سے اندر جا رہے تھے۔

افطار کا وقت ہوا تو باہر کارکنوں کے لیے بریانی اور شربت کا انتظام کیا گیا۔ سب افطاری میں مصروف ہو گئے اور معمول کے مطابق تمام نیوز چینلوں کی ڈی ایس این جی وینز سابق وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے باہر لائن میں لگ گئیں اور کیمرا مین کیمروں کا رخ آنے والے رہنماؤں اور کارکنوں کی طرف کیے ڈیوٹی سرانجام دینے میں مگن ہو گئے۔ 

افطاری کے بعد ماحول گرم ہونا شروع ہوا اور بھیڑ میں اضافہ ہو گیا۔ کچھ دیر بعد اندر سے اطلاع آئی کہ نواز شریف کو پکڑنے کے لیے جیل کا عملہ پولیس سمیت ان کی رہائش گاہ کے اندر پہنچ چکا ہے۔

یہ سنتے ہی کارکنوں نے حکومت مخالف نعرے بازی شروع کر دی، پھر پتہ چلا کہ نواز شریف کو جیل لے جانے کے لیے قافلہ روانہ ہونے لگا ہے، جس کی اطلاع مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی دی۔

آٹھ بج کر 56 منٹ پر گاڑی نواز شریف کی رہائش گاہ کے گیٹ پر پہنچ گئی۔ ان کی گاڑی سے آگے بڑی تعداد میں دیگر گاڑیاں پہلے ہی روانگی کے لیے تیار تھیں جن کی چھتوں پر ن لیگی رہنما اور کارکنان سوار تھے۔ 

نواز شریف جس گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی، گاڑی حمزہ شہباز چلا رہے تھے جبکہ پیچھے مریم نواز سوار تھیں۔ گاڑی پر ساؤنڈ سسٹم اسی طرح لگا تھا جس طرح نواز شریف کے نااہل قرار دیے جانے کے بعد اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ لاہور آتے ہوئے لگائے گئے تھے۔

ان کی گاڑی کے اطراف کارکن اور سکیورٹی اہلکار لٹکے تھے۔ کیمپوں سے گاڑی پر گل پاشی ہونے لگی اور نعرے بازی بھی شدت اختیار کر گئی۔ ان کی گاڑی کے آگے چلنے والی گاڑیوں سے پارٹی ترانے چلائے جا رہے تھے جبکہ پولیس کی دو گاڑیاں آگے اور دو پیچھے چل رہی تھیں۔

جلوس کا استقبال

مسلم لیگ ن کی ریلی کا پہلا استقبال نواز شریف کی رہائش گاہ سے رائے ونڈ روڈ پر چڑھتے ہی اڈا پلاٹ پر ہوا، جہاں کارکنوں نے کیمپ لگا رکھا تھا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں پی ٹی آئی نے الیکشن سے قبل ایک بڑا جلسہ کر کے سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا تھا۔

ریلی رائے ونڈ روڈ سے آہستہ آہستہ رنگ روڈ پر آئی اور تیز رفتاری سے فیروز پور روڈ انٹر چینج سے ہوتی ہوئی شنگھائی چوک پہنچی، جہاں ن لیگ کے کارکن موجود تھے۔

پارٹی قیادت نے اسی جگہ استقبال کی کال دے رکھی تھی۔ یہاں فلائی اوور اور گھروں کی چھتوں پر بھی بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔

یہاں سے کچا جیل روڑ پر کارکنوں کی بڑی تعداد نے ریلی کا استقبال کیا اور کیمپوں سے نواز شریف کی گاڑی پر پھول نچھاور ہوتے رہے۔ عارضی کیمپوں میں خواتین کارکنوں اور رہنماؤں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی، پارٹی ترانوں کے ساتھ ہر طرف سے ’ووٹ کوعزت دو‘ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔

مریم نواز نے یہاں کارکنوں سے خطاب بھی کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن وقت کی قلت اور بد نظمی کے خدشے کے پیش نظر انہوں نے خطاب نہیں کیا۔

ریلی کے انتظامات اسی ٹیم کے سپرد تھے جو مریم نواز کے ساتھ این اے 120کے ضمنی الیکشن میں تھی۔

ریلی کی میڈیا کوریج

مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا کہ ان کی ریلی کو میڈیا کوریج نہیں دے رہا۔ خواجہ آصف نے ٹویٹ میں الزام لگایا کہ حکومت نے پیمرا کو ن لیگ کی اس ریلی کی کوریج سے منع کیا ہے۔

اسی دوران مریم نواز سمیت دیگر رہنماؤں، کارکنوں اور ن۔ لیگ کی ڈیجیٹل ٹیم نے سوشل میڈیا پر ریلی کی ویڈیوز اور صورتحال سے لمحہ بہ لمحہ خبریں پہنچانا شروع کر دیں۔ ن لیگ کے رہنما اس سیاسی شو سے کافی خوش دکھائی دے رہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کوٹ لکھپت جیل پہنچنے پر بدنظمی

جیسے ہی ریلی کچا جیل روڈ سے کوٹ لکھپت جیل کے قریب پہنچی تو پولیس نے دو مقامات پر نفری تعینات کر رکھی تھی۔

مرد اور خواتین پولیس اہلکاروں کے پاس مزاحمت سے نمٹنے کا سامان بھی موجود تھا۔ پولیس نے پہلے مقام پر تمام گاڑیوں کو روکا اور نواز شریف کی گاڑی کو آگے جانے کی اجازت دی جس پر کارکن مشتعل ہو گئے اور پولیس سے تلخ کلامی کرنے لگے۔

تاہم ن لیگی رہنما خواجہ عمران نذیر نے مداخلت کی اور کارکنوں کی بڑی تعداد پیدل ہی نواز شریف کی گاڑی کے ساتھ آگے روانہ ہوئی۔

دوسرے مقام پر پیدل کارکنوں نے پھر گاڑی کے ساتھ جانے کی کوشش کی تو پولیس نے روک دیا۔

کافی مشکل سے حمزہ شہباز وہاں سے گاڑی گزارنے میں کامیاب ہوئے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ن لیگی قیادت وقت ضائع کیے بغیر جیل پہنچنا چاہتی ہو۔ دوسرے مقام سے صرف نواز شریف کی گاڑی کو ہی جیل کے اندر جانے دیا گیا۔

سابق وزیر اعظم کی گاڑی 12 کلومیٹر کا سفر ساڑھے تین گھنٹے میں طے کرنے کے بعد 12 بج کر 35 منٹ پر کوٹ لکھپت جیل کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہو گئی۔

جیل کے اندر گاڑی میں صرف حمزہ شہباز اور مریم نواز موجود تھے جو انہیں چھوڑ کر کچھ دیر بعد جیل سے باہر آ گئے۔

ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار دیکھا گیا جب کسی سیاسی رہنما کو جیل چھوڑنے کے لیے اتنی بڑی تعداد میں کارکن ریلی کے ساتھ آئے ہوں۔

اس سیاسی شو میں مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ 20 ہزار لوگ آئے جبکہ پولیس کے مطابق سات ہزار کے قریب افراد ریلی میں شامل تھے۔ ایجنسیوں کا تخمینہ ہے کہ چھ ہزار تک لوگ مسلسل شریک رہے۔ 

نواز شریف کا پیغام

ریلی کے دوران سابق وزیر اعظم نے گاڑی کے اندر ہی ویڈیو پیغام ریکارڈ کرایا جو مریم نواز نے اپنے موبائل سے ریکارڈ کیا تھا۔ 

ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا: ’عوام جانتی ہے مجھے کس بات کی سزا دی جا رہی ہے، ظلم کی سیاہ رات کٹ جائے گی جلد انصاف کا بول بالا ہو گا۔‘

انہوں نے ریلی میں شریک کارکنوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست