کیا اب لاک ڈاؤن کی تیاری ہے؟

ویکسین لگنی ہے لیکن ابھی اس کے نتیجے میں پھیلاؤ کو روکنا فوری طور پر ممکن نہیں ہے۔

لاہور میں ایک بند بازارکا ایک منظر۔ حکومت ایس او پیزپر عمل کے لیے آرمی کو استعمال کر کے کوشش کر رہی ہے کہ مثبت کیسز کی شرح کو نیچے لائے اور مکمل لاک ڈاؤن نہ کرنا پڑے(اے ایف پی)

دو دن پہلے کرونا کی صورت حال پر نظر رکھنے والی کمیٹی این سی او سی کا ایک اہم اجلاس وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں ہوا۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی اموات اور کیسز سے یہ خطرہ لاحق ہے کہ کہیں خدانخواستہ حالات قابو سے باہر نہ ہو جائیں۔

 ایک طرف بڑھتے ہوئے مریضوں کا ہسپتالوں کا رخ کرنا ادھر بیڈز تقریبا بھر گئے ہیں۔ اس کے بعد ادویات کے مسائل اور 60 سے 70 فیصد تک وینٹی لیٹر پہلے سے زیر استعمال ہیں۔ ایسے میں سب سے بڑی خطرے کی گھنٹی آکسیجن کی خدانخواستہ کمی ہوسکتی ہے۔

آکسیجن کی کمی کے حوالے سے بارڈر پار جو قیامت ٹوٹی ہے اس کے نتیجے میں پاکستان میں این سی او سی کو ایک نئی پریشانی لاحق ہے۔ جس طریقے سے بھارت میں ایک قیامت ٹوٹی ہے اور چیزیں سوشل میڈیا میں وائرل ہو رہی ہیں اس سے پاکستان میں بھی احساس بڑھا ہے کہ بڑھتے ہوئے کرونا کیسز سے آکسیجن پر یہاں بھی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔

وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں تفصیل سے تین اہم چیزوں پر گفتگو ہوئی۔ سرفہرست پاکستان میں آکسیجن کی سپلائی کی صورت حال تھی۔  اسد عمر متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ 90 فیصد آکسیجن کی پیداوار پہلے ہی کرونا اور دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کے استعمال میں ہے۔

وزیر صعنت نے بھی بتا دیا ہے کہ پاکستان میں آکسیجن کی پیداوار کی جتنی صلاحیت ہے وہ تمام ہی استعمال ہو رہی ہے۔

جب پہلی لہر آئی تھی اس وقت آکسیجن کے جو پلانٹ کام نہیں کر رہے تھے یا جو نئے لگانے والے تھے ان سب پر تیزی سے کام ہوا تھا۔ اس وقت جتنی صلاحیت موجود ہے تقریبا سب استعمال ہو رہی ہے۔

اب سوال یہی اٹھا تھا کہ اگر خدانخواستہ حالات خراب ہوئے تو جو انڈسٹریل پلانٹس کو آکسیجن فراہم کی جاتی ہے اس کا رخ  بھی ہسپتالوں کی جانب کر دیا جائے گا۔

اجلاس میں یہ اس پہلو پر بھی بات ہوئی کہ اگر آکسیجن تیار کرنے کے پلانٹ کی باہر سے منگوانے کی ضرورت ہوئی تو اس سلسلے میں جرمنی میں پاکستان کے سفیر سے بات کی جانی چاہیے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ سرکاری طور پر تو اس پر کوئی بات نہیں ہوئی وہ اپنے تئیں خود دیکھ رہے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان جرمنی سے وہ پلانٹ منگوا سکتا ہے۔

ابھی دو روز قبل بھارت اور جرمن حکومتوں نے یہ اعلان کیا ہے  کہ دس سے پندرہ پلانٹ ہندوستان منگوائے گا۔ اس وقت بھارت کے حالات قیامت سے تو کم نہیں ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں میں گنجائش اور ادویات اور وینٹی لیٹر پر بہت زیادہ بوجھ ہے۔ حالات پہلی لہر سے کہیں زیادہ مقدوش ہیں اور یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔

اس چیلنج کی وجہ تو عیاں ہے کہ ضلع مردان میں مثبت کیسز کی شرح 50 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ بڑھتے ہوئے مثبت کیسز کی شرح اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ خدانخواستہ آگے چل کر ایک گھمبیر صورت حال کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں متعدد اضلاع ایسے ہیں جن میں مثبت کیسز کی شرح 8 فیصد سے زیادہ ہے۔

اسی کو دیکھتے ہوئے سکولوں کو بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یہ چیلنج ہر لمحے کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان سے نمٹنے کے لیے دنیا میں تین اہم طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔

نمبر ایک لوگ ایس او پیز کو فالو کریں۔ ماسک پہنیں، ہاتھ دھوئیں سماجی فاصلہ اختیار کریں تو اس پر پاکستان کی عوام کے ایک بڑے حصے نے بتا دیا ہے کہ یہ وہ نہیں کرنے والے، 80 سے 90 فیصد لوگ تو بالکل پرواہ نہیں کر رہے ہیں۔

چھوٹے شہروں میں تو ابھی بھی یہی کہا جاتا ہے کہ کرونا بڑے شہروں کا مسئلہ ہے اور بڑے شہروں میں جائیں تو لوگ دھڑلے سے بغیر ماسک پھر رہے ہیں۔

ایس او پیز پر عمل درآمد کے ذریعے کرونا کو کنٹرول کرنا فی الحال ایسا لگتا ہے کہ عوام نے طے کر لیا ہے کہ وہ نہیں کریں گے۔ جب ہم ڈسٹرکٹ انتظامیہ سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتی ہے کہ جی آپ ہمیں بتائیں کہ بند گلی میں چھوٹی چھوٹی گلیوں میں جا کر ہم کس طرح سے ایس او پیز کا نفاذ کریں۔

ہم کہاں کہاں جائیں، ہمارے پاس صلاحیت کتنی ہے ہمیں قانون کا نفاذ بھی کرنا ہے۔ انہوں نے ٹی وی پر کہا ہے کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔  آخر پھر کیا کیا جائے؟

اس پر پاکستان کی سات حکومتیں یعنی چار صوبائی، گلگت بلتستان، کشمیر اور اسلام آباد سب نے یہ دکھا دیا ہے کہ وہ سختی نہیں کرسکتے اور وہ جرمانے زیادہ نہیں لگا سکتے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پانچ سو روپے کا جرمانہ لگائیں تو اور بھی طوفان مچے گا۔ لہذا اس اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ اب فوج کا استعمال کیا جائے اور فوج ضلعی انتظامیہ کی مدد کرے گی۔

پشاور میں اشہر کے 34 تھانوں میں پولیس کے ساتھ فوج کا گشت شروع ہو جائے  گا تاکہ دکانیں وقت پر بند کرائیں جائیں اور ایس او پیز پر عمل کروائیں۔ جس صوبے اور شہر کو ضرورت ہو گی وہ فوج کو طلب کرے گا۔

دوسرا طریقہ کار اس وبا کو روکنے کا ویکسین ہے۔ ویکسین کی پاکستان میں قلت ہے۔ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ چین سے زیادہ سے زیادہ منگوا سکے۔

لیکن ہرڈ ایمونیٹی کے لیے ڈاکٹر فیصل متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ کم از کم سال کے آخر تک اتنے لوگوں کو ویکسین نہیں لگ سکے گی کہ ہرڈ ایمونیٹی پیدا ہو سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نجی سیکٹر کو بھی درآمد کی اجازت مل رہی ہے لیکن اس کے بھی نتائج فوری طور پر سامنے نہیں آئیں گے اور وہ بہت کم آبادی کو کور کر سکے گی۔ ظاہر ہے ہر کوئی نہیں افورڈ کرسکتا۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ابھی سب لوگ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ ویکسین لگانا ان کے لیے فائدہ مند ہے۔ تو ویکسین لگنی ہے لیکن ابھی اس کے نتیجے میں پھیلاؤ کو روکنا فوری طور پر ممکن نہیں ہے۔

تیسرا طریقہ مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ لاک ڈاؤن پر وزیر اعظم کی ایک بڑی واضح پوزیشن رہی ہے کہ اس سے جو معاشی طور پر کمزور طبقہ ہے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

لیکن وزیر اعظم کو ڈاکٹر فیصل سلطان اور وفاقی وزیر اسد عمر نے خاص طور پر اس اجلاس سے قبل باور کروایا اور تفصیل سے بتایا کہ مکمل لاک ڈاؤن لازمی ہوگا۔

وزیر اعظم نے اس بات کو سمجھا ہے لیکن اس اجلاس میں انہوں نے یہ بات واضح کر دی کہ لاک ڈاؤن کرنا ہوگا تو اس کے لیے تیاری ہوگی کہ انتظامیہ کس طریقے سے ان لوگوں کو جنہیں مدد کی ضرورت ہوگی کھانا پہنچائے گی۔

دوسرا لوگوں کو اتنا وقت دیا جائے کہ وہ اگر کسی دوسرے شہر میں کام کر رہے ہیں تو اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔

اگر لاک ڈاؤن ہوگا تو کم از کم ہفتہ دس دن کا ہوگا۔ اس پر ابھی اتفاق نہیں ہوا ہے کہ کتنے دن کا ہوگا لیکن یہ طے ہوگیا کہ اگر اگلے چار پانچ دن میں مثبت کیسز کی شرح میں 8 فیصد سے کمی نہیں ہوئی تو پھر بڑے بڑے شہروں میں مکمل لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا۔

حکومت کی پالیسی ہے کہ اگلے کچھ دن بعد صورت حال کا جائزہ لیا جائے۔ یہ بات درست ہے کہ ابھی حکومت نے حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے اور لگتا ہے کہ وزیر اعظم کی سوچ یہی ہے کہ ہر ممکن  کوشش کی جائے کہ لاک ڈاؤن نہ ہو۔ انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو کہا ہے کہ وہ اس آگاہی مہم کی قیادت کریں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ کس طرح ایس او پیز ضروری ہیں۔

حکومت ایس او پیزپر عمل کے لیے آرمی کو استعمال کر کے کوشش کر رہی ہے کہ مثبت کیسز کی شرح کو نیچے لائے اور مکمل لاک ڈاؤن نہ کرنا پڑے لیکن حالات بڑے خراب ہیں اور اگلے دو چار دنوں میں سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ