شہزاد اکبر کا بشیر میمن کو 50 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس

وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے ایف آئی اے کے سابق سربراہ بشیر احمد میمن کی جانب سے خود پر لگائے گئے الزامات کے باعث قانونی نوٹس کے ذریعے 14 دن میں معافی اور 50 کروڑ روپے بطور ہرجانہ ادائیگی کا مطالبہ کردیا ہے۔

دائیں جانب وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر  اور بائیں جانب  سابق ڈی جی ایف آئی اے  بشیر میمن (تصاویر: انڈپینڈنٹ اردو/ مطیع اللہ جان یوٹیوب چینل سکرین گریب)

وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق سربراہ بشیر احمد میمن کی جانب سے خود پر لگائے گئے الزامات کے باعث قانونی نوٹس کے ذریعے 14 دن میں معافی اور 50کروڑ روپے بطور ہرجانہ ادائیگی کا مطالبہ کردیا ہے۔

ہتک عزت آرڈیننس 2002 کے سیکشن آٹھ کے تحت بشیر میمن کو قانونی نوٹس ولید، یحییٰ اینڈ معظم لا کمپنی کے ذریعے بھیجا گیا، جس میں معافی نہ مانگنے اور ہرجانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں قانونی چارہ جوئی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ 

قانونی نوٹس میں بشیر میمن کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے شہزاد اکبر کی نیک نامی اور  شہرت کو نقصان پہنچا ہے، جو ان کے لیے دلی صدمے اور ذہنی کوفت کا باعث بنا۔ 

قانونی نوٹس میں مزید کہا گیا کہ ’بشیر میمن ایف آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ جن مقدمات کی تحقیقات سے انہوں نے انکار کیا تھا انہیں بعد میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے اٹھایا اور تحقیقات کے بعد احتساب عدالتوں میں کیسز داخل کیے۔‘

قانونی نوٹس میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ شہزاد اکبر عدالتوں اور عدلیہ کی عزت کرتے ہیں اور انہوں نے بشیر میمن کو کبھی کسی معزز جج کے خلاف کسی قسم کا مقدمہ دائر کرنے کی ہدایات جاری نہیں کیں۔ 

شہزاد اکبر نے قانونی نوٹس میں بشیر میمن پر حزب اختلاف کے رہنماؤں کی کرپشن سے متعلق تحقیقات سے انکار کرکے انہیں اور ان کی کرپشن کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام بھی لگایا۔ 

بشیر میمن نے انٹرویو میں کیا کہا؟

ایف آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) بشیر میمن نے جیو نیوز کے ٹاک شو ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں شہزاد اکبر کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم پر انہیں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانے پر مجبور کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ 

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم ایک ٹوئٹر پیغام میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں ’جھوٹا‘ اور ’لغو‘ قرار دے چکے ہیں۔  

گذشتہ پیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے 19 جون 2020 کے اپنے ہی اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا، جس کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسی اور بچوں کے نام پر غیر ملکی جائیدادوں کی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذریعے توثیق کی ضرورت تھی۔  

تحریک انصاف حکومت نے مئی 2019 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کرپشن ریفرنس میں لندن میں تین جائیدادیں چھپانے کا الزام لگایا تھا۔  

بشیر میمن نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’انہیں بحیثیت ڈی جی ایف آئی اے وزیر اعظم ہاؤس بلایا گیا جہاں انہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی ہدایت کی گئی۔‘ 

انہوں نے کہا کہ یہ ہدایات وزیر اعظم عمران خان، شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کی جانب سے دی گئیں۔ ’اس وقت میں اس معاملے کی نوعیت کے بارے میں نہیں جانتا تھا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ جن کے خلاف میں کارروائی کروں گا، ان میں عدالت عظمیٰ کے جج بھی شامل ہوں گے۔‘   

بشیر میمن کے مطابق وزیراعظم ہاؤس میں انہیں شہزاد اکبر کے دفتر لے جایا گیا، جہاں انکشاف ہوا کہ (حکومت) جسٹس عیسیٰ کے خلاف کارروائی کرنے والی ہے، جبکہ بعد میں وہ فروغ نسیم کے دفتر بھی گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول بشیر میمن: ’فروغ نسیم کو بھی اس بات کا یقین تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف کیس بننا چاہیے اور مجھ سے کردار ادا کرنے کو کہا۔‘ 

سابق ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ انہوں نے حکومتی اہلکاروں کو بتانے کی کوشش کی کہ یہ کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ جسٹس عیسیٰ سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ ’یہ سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے اور اسے آئینی اختیار حاصل ہے۔ یہ ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ہے۔‘ 

ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ وفاقی وزرا نے انہیں کیس تیار کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کی۔ ’میں نے قانون اور آئین سے مثال دی اور پھر میں خاموش ہو گیا۔‘   

بشیر میمن نے مزید کہا کہ حکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنانا چاہتی تھی، جس کے متعلق انہوں نے اپنی قانونی ٹیم سے بھی مشورہ کیا اور نتیجہ وہی کہ ایف آئی اے کا دائرہ اختیار نہیں بنتا۔ 

سابق ایف آئی اے سربراہ نے مزید دعویٰ کیا کہ انہیں متعدد اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی کہا گیا تھا، جن میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم اور سابق وزیر اعظم نواز شریف، رانا ثنا اللہ، خواجہ آصف، جاوید لطیف اور پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ اور مصطفی نواز کھوکھر شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’ایف آئی اے کوئی گینگ نہیں ہے، ہمیں قانونی طریقہ کار پر عمل کرنا ہے۔‘ 

سابق وزیر دفاع خواجہ آصف کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی کے پاس اقامہ (ہائشی ویزا) ہونا جرم نہیں ہے کیونکہ یہ ’ورک پرمٹ‘ ہوتا ہے اور یہ کیسے غداری کا مقدمہ بن سکتا ہے؟  

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں عدالت میں قومی سلامتی پر سمجھوتے کا ثبوت پیش کرنا پڑے گا اور یہ ثبوت کون دے گا۔  

سابق ڈی جی ایف آئی اے نے دعویٰ کیا کہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ اس وقت کے لیے آصف علی زرداری کو گرفتار کرے۔  

بشیر میمن نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے مرحوم جج ارشد ملک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’انہوں نے کہا کہ ایک جج کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا، اس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا ہے اور اس سے یہ دہشت گردی کا مقدمہ بنتا ہے۔‘ 

گذشتہ سال اکتوبر میں بھی بشیر میمن نے الزام لگایا تھا کہ انہیں ’اعلیٰ ترین دفتر‘ میں طلب کرکے کہا گیا تھا کہ وہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل کے ارکان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کریں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست