عالم برزخ سے جون ایلیا کا خط اور کرونا

ارے بھئی یہ ہو کیا رہا ہے اب برزخ میں بھی وائرس زدہ لوگ آنا شروع ہو گئے کیا، منہ اور ماسک اٹھائے یہ کہاں سے داخل ہو رہے ہیں، نگہبان کہاں رہ گئے؟ ارے بھئی ہمیں بھی مرواؤ گے کیا؟

(Jaun Elia: ZarvanCyrus: CC BY-SA 4.0; mask: Pixabay)

علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت کے باعث معرض وجود میں آنے والی مسلم ریاست کے مکینو، تمہارے حالات بتاتے ہیں کہ تم سدھرنے والے نہیں ہو۔

سنا ہے ایک سال پرانی وبا شکل بدل بدل کرتم پر حملہ آور ہو رہی ہے اور تم ہو تمہارا سارا زور عید کی شاپنگ پر ہے۔ ارے اتنی لاپروائی؟ میرا تو خیال تھا نئی صدی میں تمہارا نیا جنم ہوا ہو گا لیکن تم تو صدیوں پیچھے کی طرف دوڑ لگا دی ہے۔

نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم

عالم برزخ میں تمہارے حالات مجھ تک پہنچے وہ بھی ایسے کہ میرے قریب سے چند نووارد ماسک لگائے گزرے تو میں پوچھ بیٹھا، ’بھیا یہ کیا تماشا ہے؟‘

بولے، ’اس ماسک کی وجہ سے ہی تو یہاں تک پہنچے ہیں۔ ‘

’ابے بھائی سٹھیا گئے ہو کیا؟ ماسک پہننے کی وجہ سے کون پہنچتا ہے یہاں؟‘

تو بولے، ’جون بھائی، پہنتے ہی تو نہیں تھے نا، اور جو منہ پر چڑھا ہی لیتے تو ناک سے نیچے رکھتے۔ ‘

میں نے پوچھا، ’وہ کیوں؟‘

بولے، ’وہ، بس ہوا کا گزر ٹھیک سے نہیں ہوتا تھا۔ ‘

ابھی حال احوال ہی چل رہا تھا کہ یکے بعد دیگرے نئی طرز کے کفن پہنے چند لوگ مزید پاس سے گزرے، ابھی تو میں ماسک سے نہیں نکلا تھا کہ ان کفن نما تھیلہ پوشوں پر نظر رُک گئی۔ ان کو بھی روک لیا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ حفاظتی لباس ہے۔ پوچھا، ’کاہے کی حفاظت؟‘

تو بولے، کرونا (کورونا) وائرس سے۔‘

ارے بھئی یہ ہو کیا رہا ہے اب برزخ میں بھی وائرس زدہ لوگ آنا شروع ہو گئے کیا ؟ ارے بھائی برزخ والو ان کو کوئی روکتا کیوں نہیں؟ منہ اور ماسک اٹھائے یہ کہاں سے داخل ہو رہے ہیں، نگہبان کہاں رہ گئے، ارے بھئی ہمیں بھی مرواؤ گے کیا؟

میرے شور کرنے پر ایک اور پڑھی لکھی لاش نمودار ہوئی۔ میری طرف دیکھ کر بولی، ’تم جون ہو نا؟‘ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا تو بولے، ’ارے بھئی، ہم بھی ادیب ہیں، تمہارے واویلا سے ایک شعر یاد آ گیا تمہارا:

ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں
کوئی خاموش ہو گیا ہے کہیں

خیر سفر جاری رہا۔ لاشوں پر لاشیں گزر رہی تھیں، بچے، نوعمر، جوان، اُدھیڑ عمر اور بوڑھے سبھی وائرس زدہ ایک کے بعد ایک آ رہے تھے۔ اپنا احوال بتاتے اور گزر جاتے۔

چونکہ میں مولودِ امروہہ ہوں، سو وہاں سے آئے لاشے بھی انتہائی خستہ حالت میں تھے اور ایک قبیلے کی صورت روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ان کا بھی گزر ہونا شروع ہو گیا۔ وہاں والے تو ماسک کے بنائے ہی گھسے چلے آ رہے تھے۔

ان سب میں ایک بات مشترک تھی کہ یہ دنیا میں احتیاط نہیں کرتے تھے، ماسک نہیں لگاتے تھے، رش میں جاتے تھے۔ ’پاریاں‘ کرتے تھے، غرض یہ کہ ان کی حکومتوں نے ان کو جس جس کام سے روکا تھا۔

انھوں نے پروا نہیں کی۔ خیر ابھی یہی سب چل رہا تھا کہ ڈاکٹروں کا ایک ٹولہ وہاں آ لیا۔ ان سے پرسش کی کہ ’تم تو ڈاکٹر تھے، تم پڑھے لکھے لوگ معلوم ہوتے ہو، تم کیسے مر گئے؟‘

بولے، ’ان کے علاج کے چکر میں ہم بھی دنیا سے کٹ لیے۔‘

میں نے کہا، ’کسی نے ان کو سمجھایا نہیں تھا، تو ایک بھلے مانس ڈاکٹر نے ایک بار پھر میرا شعر سنا دیا:

میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا؟

 کہا بھائی جون یہ ہماری سنتے ہی کب تھے۔ میں نے تمام حالات و واقعات جو سنے تھے ان کی تصدیق کے لیے انور مقصود کا نمبر گھما دیا۔ وہ تو مجھ سے جب بھی رابطہ کرتا ہے پرانے رواج اور طور طریقے کے مطابق خط لکھ کر ہی کرتا ہے۔

لیکن اس ایمرجنسی میں میرے پاس اتنی فراغت اور انتظار کا حوصلہ کہاں کہ خط لکھ کر جواب کے لیے طویل انتظار کرتا۔

میں نے احمد فراز سے انور مقصود کا نمبر مانگا۔ کہنے لگا، ’نمبر تو فون بک پر لکھا رکھا تھا اور فون بک جیب میں ہوتی ہے مسئلہ یہ ہے کہ کفن کی جیب نہیں ہوتی۔ تم ایسا کرو میرے فرزند شبلی فراز کا نمبر لے لو۔ وہ تو مجھے زبانی یاد ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ویسے بھی وہ حال ہی میں وزارت اطلاعات سے ریٹائرڈ ہوا ہے۔ اسے انور مقصود کی لازمی کچھ اطلاع ہو گی۔‘

یوں بوساطت فراز اور شبلی فراز میرا انور مقصود سے رابطہ ہو گیا۔ یہ فارغ انسان کبھی فارغ نہیں بیٹھتا۔ میں نے فون کیا تو بجائے حال احوال پوچھنے کے کہنے لگا، ’رک پہلے یہ سن کسی نے کیا خوب لکھا ہے۔ عید کے پرمسرت موقع پر خریداروں کے بھرپور ہجوم میں ہم لائے ہیں آپ کے لیے سنہری آفر۔ رش کے اوقات میں آئیں اور فوری پائیں۔ اپنے گزرے ہوئے بزرگوں سے ملاقات کا شاندار موقع۔ وہ بھی بالکل فری۔‘

انور کی اس بات نے دنیا کے حالات کی تصدیق کر دی تھی۔ اب یہاں کے حالات بھی سن لیجیے۔ یہاں ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔

وہ یہ کہہ پہلے کے مکینوں نے دھرنا دے دیا ہے کہ ہم ان کرونا کے ہاتھوں اس جہان سے یہاں پہنچنے والوں کے ساتھ نہیں رہیں گے، ان کو الگ راہداری دی جائے یا ہمیں ان سے بچایا جائے۔

ہو سکتا ہے اب یہاں بھی فرشتے قرنطینہ مراکز بنا کر ان کو الگ تھلگ کر دیں کہ ان لوگوں نے نہ صرف خود احتیاط نہیں کی بلکہ دیگر انسانوں کی جان کے لیے بھی خطرہ بنے۔

اب یہاں دیگر انسانوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے والوں کو دیگر مجرموں سے زیادہ کوڑے لگائے جاتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ