مودی کے خواب ممتا ’دیدی‘ کی لہر کی نذر

بی جے پی کو نہ صرف شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ اس کے بڑے بڑے رہنما جو ایک لمبے عرصے سے کانگریس کا صفایا کرنے کی پلاننگ کر رہے تھے، وہ بھی ہار گئے ہیں۔ 

ممتا بینرجی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ہمراہ (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے حالیہ انتخابات کا حتمی فیصلہ آ گیا ہے۔ یہ پانچ ریاستیں مغربی بنگال، کیرالہ، تامل ناڈو، آسام اور مرکز کے زیر انتظام یونین ٹریٹری پوڈوچری ہیں۔

پولنگ کا آخری مرحلہ 29 اپریل کو مکمل ہوا جس کے بعد دو مئی کو ووٹوں کی گنتی ہوئی۔ ان ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے علاوہ اتر پردیش میں پنچایتی انتخابات بھی ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق یو پی میں الیکشنز ڈیوٹی پر مامور سات سو سے زائد سرکاری ملازمین کرونا کی بھینٹ چڑھ گئے۔

 پورے ملک کی توجہ ان انتخابات پر مرکوز تھی۔ ساری سیاسی جماعتیں، وزیر اعظم مودی و دیگر مرکزی وزرا انتخابی جلسوں میں مشغول تھے کہ اسی دوران کرونا کی دوسری لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 26 اپریل کو مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سنجیب بنرجی نے ایک درخواست کی شنوائی کے دوران کرونا کی تشویشناک صورت حال کا ذمہ دار الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ٹھہرایا تھا۔ جسٹس بنرجی نے زبانی ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے افسروں پر قتل کے مقدمات ہونے چاہیے کیونکہ وہ ان انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کو بڑی بڑی ریلیاں روکنے میں ناکام رہا۔

بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کرونا کو صحیح طرح سے ہینڈل نہ کرنے کی پاداش میں تنقید کی زد میں ہے۔ ان اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا اصل ہدف دو ریاستیں آسام اور مغربی بنگال تھیں۔ ان دونوں ریاستوں میں پولرائزیشن کا استعمال کیا گیا۔ مثلاً آسام میں جو بنگلہ دیش سے آئے ہوئے لوگ ہیں ان میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں، بی جے پی ان بنگلہ دیشی ہندوؤں کو پناہ گزین کہتی ہے جبکہ مسلمانوں کو گھس بیٹھیوں کا نام دیتی ہے۔

آسام میں پناہ گزیں بنگلہ دیشی تارکین وطن ہندو اور مسلمان دونوں ہی بی جے پی سے خوش نہیں ہیں۔ اس ناراضی کی اصل وجہ 2019 کا شہری ترمیمی قانون ہے۔

ان تارکین وطن کا ووٹ بی جے پی کے خلاف پڑا ہے۔ آسام کی اسمبلی کل 126 سیٹوں پر مشتمل ہے۔ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں یہاں حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ اس سے پہلے بھی یہاں بی جے پی اتحاد یعنی این ڈی اے کی حکومت تھی۔ این ڈی اے اتحاد نے 75 سیٹیں جیتی ہیں۔ کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتیں 50 سیٹوں پر ہی سمٹ گئیں۔ آسام اسمبلی انتخاب میں ہار کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پہ لیتے ہوئے کانگریس کے ریاستی صدر رپن بورا نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

مغربی ریاست کیرالہ کی اسمبلی میں کل 140 اسمبلی نشست ہیں۔ یہاں اس سے پہلے بھی بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کی حکومت تھی جو اس بار بھی طاقت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ بائیں بازو کے لیفٹ ڈیمو کریٹک نامی اتحاد نے 140 میں سے 99 سیٹیں جیتی ہیں۔ پوری ریاست میں بی جے پی کو ایک سیٹ بھی نصیب نہیں ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح تامل ناڈو میں بھی بی جے پی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ 234 نشستوں پر مشتمل تامل ناڈو میں اس کو صرف چار سیٹیں ملیں۔ یہاں ڈراویڈا منیتا کزہاگم (ڈی ایم کے) 159 سیٹیں حاصل کیں۔ آل انڈیا انا ڈراویڈا منیتا کزہاگم (اے آئی ڈی ایم کے) کو 75 نشستوں پر فتح ملی۔ پوڈو چری کی اسمبلی کل 30 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی و اس کی اتحادی این۔ آر کانگریس 16سیٹیں جیت کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔

ان انتخابات میں سب سے دلکش مناظر مغربی بنگال میں دیکھنے کو ملے۔ پورے بھارت کی توجہ بنگال کے گرد گردش کر رہی تھی۔ کیرالہ اور تامل ناڈو میں بی جے پی کے ساتھ جو ہوا ہے یہ پہلے سے ہی نوشتہ دیوار تھا۔ حکمران جماعت بی جے پی خود بھی سمجھتی تھی کہ کیرالا میں بائیں بازو کی گرفت بہت مضبوط ہے اور تامل میں علاقائی جماعتوں کے بیچ جگہ بنانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اس لیے اس نے اپنی تمام تر توجہ مرکزی بنگال پر مرکوز رکھی۔

وزیرِ اعظم اور مرکزی وزرا نے بنگال میں کر جم کر ریلیوں سے خطاب کیے۔ سرکاری وسائل کا اندا دھند استعمال کیا گیا۔ یہ سب کرنے کے باوجود ممتا بنرجی جنہیں بنگالی میں دیدی بھی کہا جاتا ہے، انہوں نے بھاجپا کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ مغربی بنگال میں 2011 سے ممتا بنرجی کی حکومت ہے۔ اس بار یہاں بی جے پی اور ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس کے درمیان کڑا مقابلہ سمجھا جا رہا تھا۔ انتخابات مکمل ہونے پر مختلف ایگزٹ پولز بھی تقسیم نظر آئے۔ کچھ پولز بی جے پی کو آگے دکھا رہے تھے تو دوسرے ترنمول کانگریس کو۔ لیکن دونوں کے رزلٹ میں انیس بیس کا ہی فرق تھا۔

کل رزلٹ آنے کے بعد تو دیدی کی ترنمول کانگریس نے چمتکار ہی کر دیا جو بی جے پی کے لیے بھی بہت بڑا جھٹکا تھا۔ مغربی بنگال کی قانون ساز اسمبلی کی کل تعداد 292 ہے۔ ترنمول کانگریس نے 214 سیٹوں پر فتح سمیٹی۔ بھاجپا کو محض 76 سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا ہے۔ ممتا بنرجی کی جیت یقیناً بھارت میں سیکولرزم قوتوں کی جیت قرار دی جا رہی ہے۔

اس سے پہلے مغربی بنگال میں 2016 میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے اور بی جے پی تب سے ہی 2021 کا الیکشن جیتنے کا پلان کر رہی تھی۔ 2021 کا انتخاب واضح اکثریت سے جیت کر ممتا بنرجی عرف دیدی نے شدت پسند عناصر کے عزائم پر پانی پھیر دیا ہے۔ مغربی بنگال سے بی جے پی کو نہ صرف شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ اس کے بڑے بڑے رہنما جو ایک لمبے عرصے سے ترنمول کانگریس کا صفایا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، بھی ہار گئے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا