’نقل مکانی کے بعد واپس آیا تو سوات پہلے جیسا نہیں رہا تھا‘

12 سال قبل سوات میں شدت پسندی کا دور اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے رفیع اللہ خان اس وقت کی یادیں شیئر کرتے ہیں۔

18 نومبر، 2007 کو لی گئی اس تصویر میں ایک عسکریت پسند خود ساٹکہ طالبان سٹیشن کے باہر نظر آ رہا ہے (اے ایف پی)

’میری چھٹی حس اور بدلتے حالات کسی بڑے طوفان کا اشارہ دے رہے تھے۔ مٹہ، کبل اور چارباغ کے رہنے والے سیدو شریف نقل مکانی کررہے تھے۔ وہ بتاتے تھے کیسے وہ کٹھن پہاڑی راستہ طے کرکے ہمارے علاقے پہنچے تھے، لیکن مجھے اندازہ تھا کہ جلد یہ آگ پورے سوات کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔‘

یہ کہنا تھا رفیع اللہ خان کا، جنہوں نے 12 سال قبل سوات میں شدت پسندی کا دور اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

رفیع اللہ کا کہنا تھا کہ جب عسکریت پسندوں نے پورے سوات کا کنٹرول حاصل کر لیا اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تو مکین گاؤں کے گاؤں خالی کرنے لگے۔

 12 سال قبل 2009 میں پاکستان کی تاریخ کی ایک بڑی اندرونی نقل مکانی سوات سے ہوئی، جس کے نتیجے میں کم وبیش 20 لاکھ لوگ بے گھر ہوکر ‘ہوسٹ کمیونیٹیز’ اور کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔

یہ نقل مکانی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق امیر ملا فضل اللہ کے سوات میں قریباً 60 دیہاتوں پر قبضے اور وہاں متوازی نظام قائم کرنے کے نتیجے میں پیش آنے والے حالات کے بعد شروع ہوئی۔

ملا فضل اللہ ایک ایف ایم ریڈیو کے بانی اور تحریک نفاذ شریعت محمدی (ٹی این ایس ایم) کے رہنما مولانا صوفی محمد کے داماد تھے۔

 بعد ازاں 2007 میں انہوں نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنما بیت اللہ محسود کی دعوت پر ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی۔ اس طرح ایک مدرسے کا ایک عام مہتمم اتنا طاقت ور بن گیا کہ اس نے ریاست کے ہر ادارے کو چیلنج کیا۔

یہاں تک کہ وہ خود ہی قانون اور قاضی بن کر لوگوں کے سر کاٹ کر انہیں چوک پر لٹکانے لگے، جس کی وجہ سے سوات کا ‘گرین چوک’ ‘خونی چوک’ کہلایا۔

پرسکون سوات جہاں کبھی پرند چرند اور دریاؤں کا شور سنا جاتا تھا اب وہاں گولیوں کی آوازیں دہشت برسانے لگیں۔

طالبان دن دیہاڑے بازاروں اور گلی کوچوں میں اسلحے کی نمائش کرنے لگے۔ انہوں نے ‘شریعت’ کی آڑ میں کئی ایک فتوے لگائے۔ حجاموں اور میوزک کی دکانوں پر پابندی لگائی۔ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روکا گیا۔ خلاف ورزی کرنے والوں کوعبرتناک سزائیں دی گئیں۔

لیکن ان سب کے باوجود کچھ لوگوں کے لیے بھرے گھر اس طرح چھوڑنا کہ آگے کی منزل کا کچھ علم نہ ہو کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔

یہی حال رفیع اللہ کی فیملی کا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے گھر کے سامنے واقع ایک پہاڑ طالبان کا مسکن تھا۔ ایک دن ایک گن شپ ہیلی کاپٹر نے اس پہاڑ پر شیلنگ کی۔ یہ منظر دیکھ کر میرے گھر والے سہم گئے اور انہوں نے اسی وقت گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔’

رفیع اللہ نے بتایا کہ گھر چھوڑنے کا فیصلہ خاص کر اپنے دو پیارے جرمن شیفرڈ کتوں کو الوداع کہنا انتہائی کرب ناک تھا۔

’میں نے دونوں کے لیے جگہ پانی اور کھانے کا بندوبست کیا۔ گھر کو تالا لگایا اور ہم چھ سات لوگ ایک گاڑی میں سوار ہوئے۔ لیکن مجھے مسلسل خوف لگا رہا کہ کہیں طالبان میرے پیشے سے میری شناخت کرکے بیچ سڑک روک کر اتار نہ لیں۔‘

رفیع اللہ نے بتایا کہ چیچن، ازبک، وزیر اور محسود طالبان نے سوات کے اندرونی اور بیرونی راستوں پر چیک پوسٹیں بنائی ہوئی تھیں لہذا جس پر ذرا شک ہوتا اس کو گاڑی سے اتار کر گولی سے اڑا دیتے۔

’تاہم ہمار ے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ پشاور میں ہم رشتہ داروں کے حجرے میں کچھ دن رہے اور پھر ایک کرایے کا گھر حاصل کر لیا۔‘

 تقریباً چار ماہ بعد رفیع اللہ اور ان کا خاندان واپس سوات لوٹ گئے، کیونکہ فوج کی مکمل رٹ قائم ہو چکی تھی اور جگہ جگہ راستوں پر چیک پوسٹیں بھی بنائی جا چکی تھیں۔

’ہم صبح سویرے روانہ ہوئے اور رات کے 12 بجے سوات پہنچے۔ تمام راستے یہی دھڑکا لگا رہا کہ نہ جانے گھر کا کیا حشر ہوا ہوگا۔‘

جس وقت رفیع اللہ اور ان کے اہل خانہ گھر کے دروازے پر پہنچے اور انہوں نے اس پر تالا لگا دیکھا تو سب نے سکون کا سانس لیا۔

’گھر چار ماہ خالی رہنے کی وجہ سے کسی ویران کھنڈر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ صحن کے ایک طرف میرے لاڈلے دو جرمن شیفرڈ کتوں کے بے جان سوکھے جسم پڑے تھے۔ آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔‘

’لیکن سوات پہلے جیسا نہیں تھا‘

رفیع اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا گھر تو سلامت تھا لیکن سوات پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔

’سوات واپسی تو ہوئی لیکن یہ وہ سوات نہیں تھا جو اچھے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ لوٹ مار، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہونے لگے تھے۔

’جو فوج کے ساتھ تھا وہ طالبان کا دشمن تھا اور جو طالبان کے ساتھ ہوتا وہ فوج کے نشانے پر ہوتا۔ ہر شخص دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتا تھا۔ سوات کے مکینوں کا ایک دوسرے پر یہ اعتماد آج تک بحال نہیں ہو سکا۔‘

رفیع اللہ کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندی کے بعد سوات کے کلچر کو بہت نقصان پہنچا۔

‘پرانے وقتوں میں سوات کے لوگ بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی فلاح وبہبود کے کاموں میں حصہ لیتے تھے۔ مہمان کو چھوڑنے دور دور تک جاتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’راستے سے گزرنے والی گاڑی انجان لوگوں کو بھی لفٹ دیتی اور راہ گیر بغیر کسی شک کے پیشکش قبول کر لیتے۔ تاہم اب ہر کوئی ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔‘

جس عرصے میں سوات میں بدامنی پھیلی اس وقت یہ پراپیگنڈہ بھی کیا جاتا رہا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جان بوجھ کر ان عناصر کو کھلی چھوٹ دی گئی تاکہ بعد میں ان ہی کے خلاف کارروائی کرکے فوج سوات کی قیمتی اراضیوں پر قبضہ کرکے اس میں چھاؤنی قائم کر سکے۔

تاہم حقیقت اس کے برعکس معلوم ہوتی ہے کیونکہ طالبان کو شکست دینے کے بعد فوج واپس اپنے بیرکوں میں چلی گئی اور کسی بھی علاقے پر ان کا قبضہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

اگر سوات کے موجودہ حالات کی بات کی جائے تو وہاں زندگی مکمل طور پر بحال ہو چکی ہے اور پاکستان کے دور دراز کے علاقوں سے لوگ سیروسیاحت کے لیے بھی یہاں کا رخ کرنے لگے ہیں۔

عسکریت پسندی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد سوات نے کافی ترقی کی ہے۔

موٹر وے کا قیام، سکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کیمپس، بڑے بڑے ہوٹل اور نت نئے کاروبار اس بات کی نشانی ہیں اور صرف 12 سال کے عرصے میں سوات کا اس قدر ترقی کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت اور فوج سوات میں امن قائم کرنے میں سنجیدہ ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان