ایران سےمذاکرات،’قابل تصدیق اقدامات‘چاہتےہیں:سعودی عہدیدار

سعودی وزارت خارجہ میں پالیسی پلاننگ کے سربراہ سفیر رائد كريملی کے بیان سے پہلی بار اعلانیہ تصدیق ہوئی ہے کہ دو حریف ملکوں کے درمیان براہ راست مذاکرات ہو رہے ہیں۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات 2016 میں منقطع ہو گئے تھے (فائل تصویر: اے ایف پی)

سعودی عرب کی وزارت خارجہ کے ایک عہدے دار نے جمعے کو کہا ہے کہ سعودی عرب اور ایران علاقائی کشیدگی میں کمی چاہتے ہیں لیکن نتیجے کے بارے میں کوئی اندازہ لگانا بہت قبل ازوقت ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ تھا کہ ریاض ’قابل تصدیق اقدامات‘ دیکھنا چاہتا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی وزارت خارجہ میں پالیسی پلاننگ کے سربراہ سفیر رائد کریملی کے بیان سے پہلی بار اعلانیہ تصدیق ہوئی ہے کہ دو حریف ملکوں کے درمیان براہ راست مذاکرات ہو رہے ہیں۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات 2016 میں منقطع ہو گئے تھے۔ کریملی نے روئٹرز سے بات چیت میں کہا: ’جہاں تک سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ مذاکرات کا تعلق ہے، ان کا مقصد علاقے میں کشیدگی میں کمی لانے کے طریقے تلاش کرنا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوں گے لیکن کسی قسم کے حتمی نتائج تک پہنچنا بہت زیادہ قبل ازوقت ہوگا۔ ہم قابل تصدیق اقدامات کی بنیاد پرمعاملے کو پرکھیں گے، اعلانات کی بنیاد پر نہیں۔‘

علاقائی حکام اور ذرائع نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ سعودی اور ایران کے درمیان مذاکرات کا مرکزی نکتہ یمن اور 2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والا ایٹمی معاہدہ ہے، جس کی تجویز ریاض نے دی تھی۔ عراقی صدر نے بدھ کو کہا تھا کہ بغداد سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کے دو ادوار کی میزبانی کر چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعودی سفیر کریملی کے کے بقول: ’ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے سعودی پالیسی کی مکمل وضاحت کر دی گئی ہے، جنہوں نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ سعودی عرب کو ایران کے ’منفی رویے‘ سے مسئلہ ہے۔ سعودی عر ب ایران کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔‘

کریملی کا کہنا تھا کہ حالیہ میڈیا رپورٹس، جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سعودی خفیہ ادارے کے سربراہ نے دمشق میں مذاکرات کیے، درست نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شام کے لیے سعودی پالیسی کی بنیاد شامی عوام کی مدد، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اقوام متحدہ کی نگرانی میں مسئلے کے سیاسی حل، اتحاد اور شام کی عرب شناخت کی بنیاد پرقائم ہے۔

خلیجی ملکوں کو غیرعرب ملک ایران، روس اور ترکی کے شام میں بڑھتے ہوئے اثروورسوخ پر تشویش ہے۔ اس سے پہلے 2011 میں شام کی عرب لیگ میں رکنیت معطل کر دی گئی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے خانہ جنگی کے آغاز پر احتجاجی مظاہرے کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا۔

دوسری جانب امریکہ 2018 میں 2015 میں ہونے والے ایٹمی معاہدے سے الگ ہو گیا تھا اور سابق امریکی صدر نے کہا تھا کہ معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کی ضرورت ہے، تاہم امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکہ معاہدے میں دوبارہ شامل ہونا چاہتا ہے لیکن ایران کو اس کی شرائط کی پاسداری کرنی ہوگی۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا