اسمبلیاں ٹوٹنے کی محض گپ شپ

سچ تو یہ ہے کہ نہ عمران خان پہ کوئی پریشر ڈال کر ان کو گھر بھیج رہا ہے اور نہ وہ اسمبلی توڑ رہے ہیں - البتہ بات ہوتی ہے تو میڈیا پر بہت دور تک جاتی ہے۔

عمران خان ابھی کہیں نہیں جا رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

گپ پھر گرم ہوئی کہ وزیر اعظم عمران خان اسمبلی توڑ سکتے ہیں۔ کوئی چوتھی مرتبہ ایسی بات سامنے آئی اور ہمیشہ کی طرح وزیر اعظم خود اس پر نہیں بولے لیکن اس مرتبہ ان کے پرانے ساتھی اور سینیئر وزیر اسد عمر نے اس کی وضاحت کی۔

ایک ٹی وی شو میں وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ وزیر اعظم سیاست اور حکومت میں آنے کے اپنے اہداف پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ایک اینکر نے ان سے پوچھا کہ کیا وزیر اعظم اسمبلی توڑ نے کا بھی سوچ سکتے ہیں تو اسد عمر نے جواب دیا کہ وزیر اعظم بلیک میل نہیں ہوں گے، اپنے اہداف سے نہیں ہٹیں گے اور اگر ان کو یہ لگا کہ حکومت میں رہ کے وہ جو کام کرنا چاہتے ہیں، وہ نہیں ہو سکتا تو پھر یقیناً اسمبلی کو توڑ دیں گے۔

اس کے بعد سوشل میڈیا، ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات میں یہ بحث پھر سے چھڑ گئی کہ وزیر اعظم اب اسمبلی توڑنے کا سوچ رہے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم اسمبلی توڑ دیں گے؟ ہر گز نہیں! وزیر اعظم نے پچھلے تقریباً تین سال میں جس طرح سے حکومت کی ہے اور جس طریقے سے انہوں نے کارروائیاں کی ہیں اس سے تو ان کا اسمبلی توڑنے کا خود کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔

جب ان کے بہت اہم رکنِ کابینہ حفیظ شیخ، جن کو وہ سیینٹ کی سیٹ دلوانا چاہتے تھے، ان کو نشست نہیں ملی تو وزیر اعظم کو یہ سمجھ آئی کہ انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے باآسانی ووٹ لیا اور جیت گئے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم عمران خان یہ کہتے رہے ہیں کہ 'میں بلیک میل نہیں ہوں گا مجھے حکومت کے ساتھ اقتدار سے چپکنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ کچھ اپنے مقاصد ہیں، کچھ اپنے اہداف ہیں، کچھ اپنے خواب ہیں وہ لے کر آیا ہوں اور میں ان پر عمل پیرا رہوں گا چاہے جو جو بھی دباؤ ہو۔'

موجودہ حالات میں کسی بھی صورت میں اسمبلی توڑنے کا امکان دکھائی نہیں دیتا تو سوال یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم کے حوالے سے یہ بات کہی کیوں جاتی ہے۔

اس حوالے سے کچھ پہلوؤں پر نظر ڈالنے کی شاید ضرورت ہے۔

وزیر اعظم اکثر بات بہت کھل کر کر دیتے ہیں۔ وہ یقیناً عوامی طور پر کہتے ہیں کہ میں بلیک میل نہیں ہوں گا تو وہ نجی سطح پر بھی یہ کہہ دیتے ہوں گے کہ جو میرے مقاصد ہیں، میں ان پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ تو یہ وزیر اعظم کے بات کرنے کا طریقہ ہے اور لوگ اس کو حقیقت سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بالکل اس میں کوئی گنجائش نہیں کہ وزیر اعظم مشکل میں، پریشر میں یا غصے میں آ کے اسمبلی کو تحلیل کر دیں گے۔

دیکھا جائے تو وزیر اعظم نے تو اس کے برعکس اقدامات اٹھائے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہے کہ جس اسمبلی میں وہ بیٹھے ہیں، وہ اب اپنے اتحادیوں کی مرہون منت ہے۔ اگر یہ اتحادی جیسے کہ ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق، جی ڈی اے اور باپ پارٹی حمایت ختم کر دیں تو ان کی حکومت دھڑام سے گر سکتی ہے۔

اور ہم نے دیکھا کہ جب یہ بات چھڑی کہ شاید کہیں کوئی اس طرح کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے کہ وزیر اعظم کو شاید گھر بھیجا جائے یا حکومت ختم کر دی جائے تو اس وقت ہم نے دیکھا کہ انہوں نے سیاسی کمیٹیاں بھی بنائیں، متحرک بھی ہوئے اور خود جا کر اہم اتحادی مسلم لیگ ق کی قیادت سے جا کر ملے۔ جب انہیں لگا کہ وہ ناراض ہیں تو انہوں نے جاکر انہیں منانے کی کوشش کی۔ وہ اتحادیوں کے ساتھ اپنا سلسلہ جاری رکھتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ اتحادی ان کے حکومت میں رہنے کے لیے بڑے لازمی ہیں۔

اپنی مرضی سے حکومت کوئی نہیں چھوڑتا ہے یعنی حکومت چھڑوائی جاتی ہے، عدم اعتماد کے ذریعے گرائی جاتی ہے یعنی جو بھی حالات پیدا ہوتے ہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تو کوئی حکمران اپنی کرسی سے اٹھ کر نہیں چلا گیا۔ نہ اس کے کوئی امکانات ہیں کہ عمران خان اس طریقہ کار سے انحراف کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بات یہ ہے کہ عمران خان البتہ اوروں کو گھر ضرور بھیجتے ہیں۔ وزیر اعظم اپنی کابینہ میں کوئی پانچ مرتبہ تبدیلی لائے ہیں۔ جب ان کو لگتا ہے کہ کوئی کام نہیں کر رہا ہے یا کارکردگی ٹھیک نہیں ہے تو وہ ان کو گھر بھیج دیتے ہیں یا ان کا قلم دان بدل دیتے ہیں۔ اسی طریقے سے جب ان کو یہ دکھائی دیا کہ خیبرپختونخوا میں سال کے اوائل میں ان کے جو نوجوان وزیر تھے، ان کے حوالے سے سینیٹ میں خرد برد کی بات ہوئی اور یہ بات ہوئی کہ شاید کوئی جا کر اسٹیبلشمنٹ سے ملے ہیں تو وزیر اعظم نے انہیں کہا کہ آپ گھر جائیں۔

اسی طرح جب شروع میں کے پی میں ہی وزرا میں کرپشن کا ایک واقعے سامنے آیا تو انہوں نے انہیں بھی گھر بھیجا۔ وہ جو شیرپاؤ گروپ تھا ان کے وزیر کو گھر بھیجا۔ اب حال ہی میں جہانگیر ترین جو ان کے دوست ہیں ان کو چونکہ وہ وزیر نہیں تھے تو گھر تو نہیں بھیجا لیکن بہرحال انہوں نے ایک سخت موقف اپنایا کہ ان کا احتساب ہوگا۔

یہ جو جہانگیر ترین فیکٹر ہے یہ دلچسپ ہے۔ چونکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے تحریک انصاف کے بیس تیس لوگ آکر اکٹھے کھڑے ہو گئے جہانگیر ترین کے ساتھ تو پھر یہ بھی خبر آئی کہ انہوں نے جہانگیر ترین سے ملاقات کی ہے۔ یہ رپورٹ ہوا اور اس کی کوئی تردید ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ انہوں نے علی ظفر کو ذمہ داری دی کہ جی آپ دیکھیں کہ کہیں کوئی زیادتی تو نہیں ہوئی۔

جو دلچسپ بات ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان حکومت میں رہنے کے لیے ہر وہ قدم اٹھاتے ہیں جس کی ان کو ضرورت پڑتی ہے۔ عمران خان اپنی مرضی سے چلتے ہیں کسی کے کہنے پر نہیں چلتے۔ ان سے کہا گیا اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے یہ بات عوامی سطح پر کہی گئی، لوگوں نے کی کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ نے بتایا کہ پنجاب سے بزدار جائیں۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ ان کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے لیکن عمران خان  نے کہا کہ نہیں وہ میرے وسیم اکرم پلس ہیں اور ان کو میں رکھوں گا۔

جب کبھی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ذکر ہو کہ کسی وجہ سے کچھ کوشش کا، کچھ سگنلز کا یا حکومت پر پریشر ڈالنے کا تو اس وقت شاید پی ٹی آئی کے رہنما یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ عمران خان نرمی نہیں دکھائیں گے اور کبھی اس طرح کی بھی بات کی جاتی ہے کہ وہ اسمبلی توڑ دیں گے لیکن اپنا ایجنڈا نہیں چھوڑیں گے۔

سچ تو یہ ہے کہ نہ ابھی عمران خان کو کوئی ادارہ گھر بھیج رہا ہے اور نہ عمران خان خود اسمبلی توڑ رہے ہیں، البتہ بات ہوتی ہے تو میڈیا پر بہت دور تلک جاتی ہے۔


نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ