ای سی ایل اور بلیک لسٹ میں فرق: نام کیسے نکلوایا جائے؟

پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق کے دور اقتدار میں وفاقی حکومت کو کسی شہری کو ملک سے باہر جانے سے روکنے کا اختیار دینے کے لیے 21 دسمبر 1981 کو ایگزٹ فرام پاکستان (کنٹرول) آرڈیننس جاری کیا گیا۔

اس قانون کے تحت وفاقی حکومت کسی شہری کو بیرون ملک سفر سے روک سکتی ہے، اور ایسے افراد کےناموں پر مشتمل فہرست کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کہا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی صدر میاں شہباز شریف کو بتاریخ آٹھ مئی علاج کی غرض سے لندن جانے کے لیے جہاز میں سوار ہونے روک دیا گیا تھا۔

جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے وفاقی حکومت کو ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔  

بدھ کی شام وفاقی کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی نے شہباز شریف کو ملک سے باہر جانے  سے روکنے کی سفارش کی ہے، تاہم اس سلسلے میں حتمی فیصلہ وفاقی کابینہ نے کرنا ہے۔  

جب سے شہباز شریف کو بیرون ملک سفر سے روکا گیا ہے روایتی اور سوشل میڈیا پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) اور بلیک لسٹ کا بہت چرچا ہے۔ 

مندرجہ ذیل سطور میں ہم واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ ای سی ایل اور بلیک لسٹ کیا ہیں، دونوں میں فرق کیا ہے، کن قوانین کے تحت شہریوں کے نام ان میں شامل کیے جاتے ہیں، اور ان میں سے نام نکلوائے کیسے جا سکتے ہیں؟ 

ای سی ایل کیا ہے؟ 

پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق کے دور اقتدار میں وفاقی حکومت کو کسی شہری کو ملک سے باہر جانے سے روکنے کا اختیار دینے کے لیے 21 دسمبر 1981 کو ایگزٹ فرام پاکستان (کنٹرول) آرڈیننس جاری کیا گیا، جس میں وقت کے ساتھ ترامیم بھی کی گئیں جب کہ آخری دفعہ 2021 میں اس قانون کے تحت رولز بھی بنائے گئے۔ 

اس قانون کے تحت وفاقی حکومت کسی شہری کو بیرون ملک سفر سے روک سکتی ہے، اور ایسے افراد کے ناموں پر مشتمل فہرست کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کہا جاتا ہے۔ 

ای سی ایل کو لگاتار اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے، اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں خصوصا وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کی جاتی ہے، جو ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور زمینی بین الاقوامی سرحدی راستوں پر انٹیگریٹڈ بارڈر منیجمنٹ سسٹم (آئی بی ایم ایس) کی مدد سے ملک سے جانے والوں کے نام وفاقی حکومت کی ای سی ایل سے میچ کرتے ہیں، اور کسی مسافر کا نام اس فہرست میں موجود ہونے کی صورت میں اسے بیرون ملک سفر سے روک دیا جاتا ہے۔ 

سپریم کورٹ کے وکیل عمران شفیق کے مطابق صرف وفاقی حکومت ہی کسی کا نام ای سی ایل میں ڈال سکتی ہے، اور وفاقی حکومت سے مراد وفاقی کابینہ بشمول وزیر اعظم ہے۔ 

وفاقی کابینہ نے ای سی ایل میں ناموں کی شمولیت پر بحث کے لیے ایک کابینہ کمیٹی بنا رکھی ہے، جس میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد، وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم اور وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر شامل ہیں۔ 

ای سی ایل کمیٹی کا فیصلہ یا سفارشات وفاقی کابینہ کے سامنے پیش ہوتی ہیں اور انہی سفارشات کی بنیاد پر کابینہ کوئی حتمی فیصلہ کرتی ہے۔ 

عمران شفیق کا کہنا تھا کہ کابینہ پر کسی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے لیے ناقابل تردید ثبوت اور شواہد پیش کرنا لازمی ہے، اور ایسا لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے میں ضروری قرار دیا گیا تھا۔ 

ایگزٹ فرام پاکستان (کنٹرول) آرڈیننس کے تحت بنائے گئے رولز کے مطابق مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر کسی شہری کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ 

1۔ بدعنوانی اور طاقت یا اختیار کا غلط استعمال، جس سے حکومت کے فنڈز یا املاک کو نقصان پہنچا ہو،  

2۔ معاشی جرائم جہاں حکومتی فنڈز غبن کیے گئے یا ادارہ جاتی دھوکہ دہی کا ارتکاب کیا گیا ہو۔ 

3۔ دہشت گردی کی واردات یا اس کی سازش، گھناؤنے جرائم اور قومی سلامتی کو خطرہ، 

4۔ ایک کروڑ روپے سے زیادہ قرض یا واجبات کے سلسلے میں کسی فرم کے ڈائریکٹرز کے معاملات، 

5۔ دس کروڑ روپے سے زیادہ قرض یا واجبات کے عوض کسی فرم کے دو یا زیادہ ڈائریکٹرز کے معاملات 

6۔ جب کوئی نام عدالت کی طرف سے اس سلسلے میں فراہم کیا جائے

7۔ منشیات کی اسمگلنگ

ای سی ایل میں نام شامل ہونے کے بعد متاثرہ شہری کے پاس پندرہ روز کے اندر سیکریٹری داخلہ کو اپیل کرنے کا حق ہوتا ہے، تاہم عمران شفیق کے مطابق: ’یہ کوئی بہت اچھی ریمیڈی نہیں ہے۔‘ 

بلیک لسٹ 

وفاقی تحقیقاتی ادارہ ای سی ایل کے علاوہ ایک دوسری فہرست بھی بناتا ہے جس میں ان شہریوں کے نام شامل ہوتے ہیں جنہیں وفاقی حکومت غیر موجود شہریوں کو ممکنہ غیر ملکی سفر سے روکنے کا ارادہ رکھتی ہے، اور اس فہرست کو بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران شفیق کا کہنا تھا کہ بلیک لسٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، اور اسے ایف آئی ای کا خود ساختہ انتظامی طریقہ کار کہا جا سکتا ہے۔ 

جولائی 2018 میں موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے مشیر زلفی بخاری کو ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہونے کے باعث اسلام آباد ائیر پورٹ پر سعودی عرب جانے سے روک لیا گیا تھا۔  

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بعد ازاں ایک فیصلے میں بلیک لسٹ کو غیر قانونی قراردیا تھا۔ 

تاہم  عمران شفیق نے کہا کہ بعض حکومتی ادارے اب بھی خفیہ طور پر بلیک لسٹ کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ 

پی این آئی ایل  

پروویشنل نیشنل آئیڈینٹیفیکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) ایک ایسی فہرست ہے جس میں ایف آئی اے بیرون ملک سفر سے روکنے کے لیے کسی شہری کا نام ایک مہینے کے لیے شامل کر سکتا ہے، جو مزید 30 دن کے لیے بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔ 

پی این آئی ایل میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7، قتل مقدمات، ریپ یا بچوں کے اغوا میں ملوث اور دوسرے کسی سنگین جرم میں ملوث شہری کا نام اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان