’بلیک فنگس‘: بھارت میں کرونا مریضوں کو ایک اور بیماری کا سامنا

طبی ماہرین نے بتایا کہ انہوں نے حالیہ ہفتوں میں بھارت میں ایسے کیسز میں اضافہ دیکھا ہے جبکہ اتوار کو مرکزی وزارت صحت کو اس انفکشن کے علاج کے طریقہ کار کے بارے میں ایک ہدایت نامہ جاری کرنا پڑٓا۔

اس انفیکشن کے علاج میں سرجری سے تمام مردہ اور متاثرہ ٹشووں کو ختم کرنا اور اینٹی فنگل تھراپی کا کورس کرنا شامل ہے (اے ایف پی)

بھارت میں ایک وقت جب ملک کرونا (کورونا) وائرس کی دوسری لہر کے باعث بدترین صورت حال سے گزر رہا ہے وہیں اس وائرس سے متاثرہ اور صحت مند ہونے والے مریض ایک مہلک اور غیرمعمولی فنگس (پھپھوندی) کا شکار ہو رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارت میں جمعرات کو مسلسل دوسرے روز گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس سے چار ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ ہوئی ہیں جب کہ مسلسل چوتھے دن سے اس وبا کے شکار ہونے والے بھارتیوں کی تعداد ہر روز تقریباً چار لاکھ کے قریب ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کیسز اور اموات کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب بھارت میں ڈاکٹروں اور طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ’بلیک فنگس‘ کا برتاؤ عام طور پر ان مریضوں میں سب سے زیادہ جارحانہ ہوتا ہے جن کا مدافعتی نظام پہلے سے ہی کسی دوسرے انفیکشن کے باعث کمزور پڑ چکا ہوتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طبی ماہرین نے بتایا کہ انہوں نے حالیہ ہفتوں میں بھارت میں ایسے کیسز میں اضافہ دیکھا ہے جبکہ اتوار کو مرکزی وزارت صحت کو اس انفکشن کے علاج کے طریقہ کار کے بارے میں ایک ہدایت نامہ جاری کرنا پڑٓا۔

ریاست گجرات کی کووڈ  ٹاسک فورس کے ایک رکن اور متعدی امراض کے ماہر اتل پٹیل نے احمد آباد سے اے ایف پی کو بتایا: ’کووڈ 19 کے مریضوں میں صحت یابی کے بعد اس فنگس کے انفیکشن سے متاثر ہونے کے امکانات وبا سے پہلے کی نسبت تقریباً چار سے پانچ گنا زیادہ ہیں۔‘

مغربی ریاست مہاراشٹر میں ریاستی ٹاسک فورس کے رکن اور ممبئی کے پی ڈی ہندوجا نیشنل ہسپٹل سے وابستہ خسراو کے مطابق بھارت کے تجارتی مرکز میں ایسے 300 کیسز کا پتہ چلا ہے۔ 

سرکاری سطح پر چلائے جانے والے ہسپتالوں کے اعداد و شمار کے مطابق احمد آباد سمیت ریاست گجرات کے چار شہروں میں بھی اب تک 300 کے قریب ایسے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

اس صورت حال اور ایسے کیسز میں اضافے کے بعد ریاست نے سرکاری ہسپتالوں کو ’بلیک فنگس‘ سے متاثرہ مریضوں کے لیے علیحدہ وارڈ قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔

حکومتی ایجنسی ’انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ‘ (آئی سی ایم آر) نے ٹوئٹر پر جاری ٹریٹمنٹ چارٹ میں کہا: ’اگر اس کی پرواہ نہ کی گئی تو فنگس مہلک ہوسکتا ہے۔‘

آئی سی ایم آر نے مزید بتایا کہ کووڈ 19 کے ان مریضوں میں اس فنگل انفیکشن کا شکار ہونے کا زیادہ خطرہ ہے جن کے خون میں گلوکوس کی مقدار بے قابو ہو، وہ لوگ جو کرونا کے علاج کے دوران سٹیرائڈز استعمال کرتے رہے ہوں یا وہ لوگ جن کو ہسپتال کے آئی سی یو میں طویل عرصے تک رہنا پڑا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس انفیکشن کے علاج میں سرجری سے تمام مردہ اور متاثرہ ٹشووں کو ختم کرنا اور اینٹی فنگل تھراپی کا کورس کرنا شامل ہے۔

لیکن ممبئی کے ڈی وائی پاٹل ہسپتال میں ای این ٹی کے ماہر یوگیش دبھولکر نے اے ایف پی کو بتایا کہ فنگس سے متاثرہ افراد کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوائیں مہنگی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فنگس کے اچانک بڑھتے ہوئے کیسز کے باعث سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کے لیے دوائیان بھی کم پڑ رہی ہیں۔

بجن نے کہا: ’ان کیسز میں اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ صرف پیچیدہ سرجری سے ہی چند لوگ صحت یاب ہو سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’یہ ایک تیزی سے پھیلنے والا انفیکشن ہے۔ یہ دو ہفتوں میں بڑھ سکتا ہے۔۔۔ ایک وائرس سے نکلنے کے بعد اس فنگل انفیکشن کا شکار ہو جانا حقیقتاً ڈراؤنا خواب ہے۔‘

’دی انڈپینڈنٹ‘ کے مطابق یہ فنگل انفیکشن، جسے mucormycosis کہا جاتا ہے، ہوا میں موجود mucormycetes نامی مولڈز کے ایک گروپ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور شدید بیماریوں میں مبتلا افراد کرونا  یا کم مدافعتی قوت کے حامل افراد میں پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ایسے مریضوں میں ایک بار سانس کے ذریعے داخل ہونے والا انفیکشن سائنس (sinus) کی کیویٹیز، پھیپھڑوں اور سینے کی کیویٹی میں پھیل سکتا ہے۔

اس فنگل انفیکشن کی کچھ علامات میں مستقل سر درد ہوتا ہے جب کہ سائنس ہڈیوں کی کیویٹیز اور اعصاب کو متاثر کرتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا