شاطر غنی اور جنرل باجوہ

صدر اشرف غنی نے کہا کہ جنرل باجوہ نے یقین دلایا تھا کہ پاکستان طالبان کو حکومت میں شامل کرنے کا مخالف ہے۔ بہت کمال کا وار کیا جس سے طالبان پاکستان سے متنفر ہوں گے- یہی صدر اشرف غنی پاکستان سے طالبان کو رام کرنے کی توقع بھی رکھتے ہیں۔

10 مئی کو کابل میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ملاقات (افغان صدارتی ویب سائٹ)

پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے چیف کے ہمراہ 10 مئی کو کابل سے واپس لوٹے تو ایک اعلامیہ جاری ہوا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان نے افغانستان میں ملاقات کے دوران بہت واضح طور پر کہا کہ ہر صورت میں ایک افغان حکومت جو ’افغان لڈ اور افغان اون‘ یعنی افغانستان کے لوگ ہی اس کو بنائیں گے اور تمام افغانوں کے کہنے اور اتفاق رائے پر ہی یہ عمل آگے بڑھے گا۔ اس طریقہ کار سے جو حکومت قائم ہو گی پاکستان اس حکومت کو ہر صورت تسلیم کرے گا۔

10 مئی کو ہونے والی اس ملاقات میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل سر نکولس پیٹرک کارٹر بھی موجود تھے۔

سب نے افغانستان میں قیام امن کے عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہا اور اسے خوش آئند اور مثبت قرار دیا۔ آرمی چیف کی بعد میں افغانستان کی قومی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی اسے سراہا۔

اس دورے میں افغانستان میں قیام امن پر بات چیت کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تعلقات خاص طور پر عسکری سطح پر تعاون بڑھانے کی بات ہوئی۔

دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پاک افغان سرحد کی نگرانی اور پورے خطے میں امن کے حوالے سے دونوں ممالک کے کردار پر بات ہوئی۔ اس ملاقات میں برطانوی چیف آف ڈیفنس سٹاف بحیثیت ایک ثالث کے موجود تھے۔

پچھلے 40 سال میں پاکستان افغانستان کے تعلقات میں پاکستان کے عسکری اداروں کا کردار سب سے اہم رہا ہے۔ اس وجہ سے اداروں کا ملنا ملانا سیاسی اداروں کی نسبت زیادہ رہا ہے۔ اس میں چاہے منتخب یا فوجی حکومتیں رہی ہوں طریقہ کار ایک رہا ہے۔

یہ بھی بڑا واضح تھا کہ افغانستان کے اندر چاہے افغان حکومتیں ہوں، بین الاقوامی طاقتیں ہوں یا امریکی فورسز انہوں نے بھی پاکستان کے عسکری اداروں سے تعلق رکھا ہے۔

پاکستان کے سابق آرمی چیف چاہے جنرل اشفاق کیانی ہوں یا جنرل راحیل شریف ہوں یہ بھی افغانستان کے ساتھ تعلقات میں اور بشمول امریکہ جو بین الاقوامی قوتیں وہاں موجود ہیں ان کے ساتھ بہت متحرک اور رابطے میں رہے ہیں۔

پاکستان کی منتخب سیاسی حکومتوں کا بھی کسی حد تک افغانستان کے ساتھ تعلقات میں ایک کردار رہا ہے۔ لیکن یقینی طور پر آپریشنل لیول ہے اس میں شاید اگر یہ کہیں کہ زیادہ کردار پاکستان کے عسکری اداروں کا رہا ہے تو غلط نہ ہو گا۔

سوویت یونین جب ٹوٹا تو اس میں پاکستان کا ایک کردار تھا لیکن وہ ایک اور قصہ ہے کہ پاکستان نے اس کی کیا قیمت ادا کی۔ ملک کے اندر کیا کیا نہیں ہوا۔

چاہے کلاشنکوف ہو چاہے نشہ اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، مذہب کے معاملے پر ملٹرائزیشن ہوئی اور فرقہ واریت بڑھی۔ پاکستان نے اس کی بہت بھاری قیمت ادا کی۔

قصہ مختصر یہ کہ اس پالیسی کی قیمت آج تک ادا کی جا رہی ہے۔ ذرا واپس جنرل قمر باجوہ کی میٹنگ پر آئیں تو بڑی اچھی ملاقات تھی۔ برطانیہ کے کہنے پر ہونے والی اس میٹنگ کو اس نے بھی سراہا۔

یہ کوئی منفرد ملاقات نہیں تھی۔ جنرل باجوہ اشرف غنی سے متعدد مرتبہ مل چکے ہیں اور ان کے درمیان رابطہ برقرار ہے۔

بعض ذرائع کا کہنا تھا کہ کچھ ماہ قبل افغانستان کے صدر راولپنڈی پہنچے تھے اور وہاں بھی دونوں کی ملاقات ہوئی تھی۔ تو اعتماد سازی کے لیے پاکستان کے عسکری ادارے جس میں آئی ایس آئی بھی شامل ہے مسلسل بات چیت کرتے رہے ہیں اس امید پر کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کا افغاستان میں امن لانے کے لیے کردار اور نیت کو سمجھا جائے گا۔ پاکستان بغیر کسی پسند ناپسند کے حالات کو بہتری کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔

اجلاس کے بعد کابل سے پاکستان مخالف نائب افغان صدر امر صالح بھی اجلاس کو سراہا۔ صدر غنی نے فرمایا کہ جنرل باجوہ نے انہیں یہ یقین دلایا ہے کہ پاکستان طالبان کو حکومت میں شامل کرنے کا مخالف ہے۔

بہت کمال کا وار کیا! اس سے طالبان پاکستان سے متنفر ہی ہوں گے، یقینا شاطر غنی یہ جانتے تو ہیں۔ پھر یہی غنی پاکستان سے طالبان کو رام کرنے کی توقح بھی رکھتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ طالبان کسی کی بات نہیں سنتے۔ وقتی طور پر ملکوں، لوگوں اور اداروں سے فائدہ ضرور اٹھا سکتے ہیں لیکن بات وہی کرتے ہیں جو انہیں اپنے فائدے میں دکھائی دے۔ ہم نے نائن الیون سے لے کر اب تک جو طالبان کی طرف سے رویہ دیکھا ہے وہ کبھی غصہ، کبھی سرد مہری، کبھی دوستی۔ یقینا طالبان کے لیے پاکستان ایک اہم بیس رہا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بڑی چیزیں تبدیل ہوئی ہیں۔

پاکستان نے طالبان کے کئی کمانڈرز امریکہ کے حوالے کیے۔ اس پر طالبان نے شکایت بھی کی ناراضی کا اظہار بھی کیا ہے۔ بہرحال پاکستان اور طالبان کے تعلقات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستانی عسکری اداروں نے بہت کوشش کی ہے اور دنیا نے اس کو مانا بھی ہے کہ طالبان کو دوحہ مذاکرات میں جانے پر تیار کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ نے 2019 جو امن کا سلسلہ شروع کیا ہے اس میں طالبان سے جس حد تک ممکن تھا پاکستان نے بات چیت کروائی۔ کچھ معاملات بھی سلجھے۔

اس کے بعد طالبان کا جو پاکستان میں اثر و رسوخ تھا کچھ کم ہوا۔ پاکستان نے امریکہ، افغانستان اور دیگر ممالک کو سمجھایا کہ وہ طالبان کو نہ اپنا مہرا سمجھتا ہے نہ ہی ساتھی اور نہ ہی انشورنس سمجھتا ہے۔ طالبان سیاسی طور پر اب بالغ ہوچکے ہیں۔

جنرل باجوہ کے دورہ کابل کا مقصد اعتماد سازی تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دورے کے 100 گھنٹے کے اندر اندر صدر اشرف غنی نے ایک جرمن جریدے در شپیگل کو ایک انٹرویو دیا جس میں انہوں نے بہت واضح طور یہ کہا کہ پاکستان میں ابھی بھی طالبان کے اڈے ہیں اور ان کو ہر قسم کی مدد مل رہی ہے۔

انہیں اسلحہ بھی مل رہا ہے اور ان کی وہاں سے آمدورفت بڑی آسانی سے ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو چاہیے کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈالیں اور اسے طالبان کی امداد کرنے سے روکیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت لازمی ہے کیونکہ اس کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا اور اگر ضرورت ہو اور وہ طالبان کی مدد کرنے سے باز نہیں آتا تو پاکستان پر پابندیاں بھی عائد کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان جرائم پیشہ ہیں وہ قتل و غارت کر رہے ہیں اس لیے ان کو روکنا لازمی ہے۔ ان کا ارشاد تھا کہ اگر جب تک پاکستان کو نہیں روکا جائے گا تو طالبان یہ کرتے رہیں گے۔

یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف اعتماد سازی کی فضا قائم کرنے گئے اور نتیجہ یہ سامنے آگیا۔ افغان صدر کی سوچ اور حکمت عملی یہ ہے کہ اپنے آپ کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے سے مضبوط رکھنا ہے۔

جیسے جیسے افغانستان سے امریکہ کی افواج کے انخلا کا وقت ستمبر 2021 قریب آ رہا ہے لگ یہ رہا ہے کہ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ صدر اشرف غنی اپنے آپ کو حکومت میں رکھنے کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کریں گے۔

وہ 2014 سے حکومت میں ہیں اور متعدد بار کہہ بھی چکے ہیں کہ وہ حکومت نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں۔ ان کی حکومت دوحہ مذاکرات میں شریک ہے لیکن نیت ان کی یہ ہے کہ وہ حکومت سنبھالے رکھیں۔

اپنے ارادے کو پورا کرنے کے لیے انہیں جتنی بھی اور جہاں بھی ضرورت ہوگی وہ پاکستان کے خلاف نہ صرف بات کریں گے بلکہ اپنے پورے زور و شور سے دباؤ بھی ڈلوائیں گے۔


نوٹ: یہ مضمون مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ