جنرل باجوہ کا دورہ افغانستان: کیا طالبان پاکستان کی بات مانیں گے؟

پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ کا دورہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب امریکی افواج افغانستان سے بوریہ بستر گول کر رہی ہیں، اور خدشہ ہے کہ ملک میں طالبان دوبارہ غلبہ حاصل نہ کر لیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ افغانستان دورے کے حوالے سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب تک دونوں ممالک میں اعتماد کی فضا قائم نہیں ہوگی، جنگ بندی نہیں ہوگی، تب تک  امن مذاکرات اور افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا مشکل ہوگا۔ (تصویر: آئی ایس پی آر)

پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک ایسے وقت میں افغانستان کا دورہ کیا ہے اور وہاں اعلیٰ حکام سے اہم ملاقاتیں کی ہیں جب امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ افغانستان سے اپنے آخری فوجی نکالنے کے لیے تاریخ طے کر چکی ہے اور طالبان کی جانب سے شدت پسند کارروائیوں میں ایک بار پھر تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

پاکستان کی فوج کے سربراہ کی افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ سے کابل میں ملاقات کے بارے میں پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جنرل باجوہ نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکیٹیو عبداللہ عبداللہ سے افغان عمل میں موجودہ پیش رفت پر بات کی ہے۔ 

یہ دورہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب امریکی افواج افغانستان سے بوریہ بستر گول کر رہی ہیں، اور خدشہ ہے کہ ملک میں طالبان دوبارہ غلبہ حاصل نہ کر لیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے تاہم اس دورے کے بارے میں افغان امور کے ماہر طاہر خان کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے طالبان پر دباؤ ڈالنا آسان نہیں ہے، خدشہ ہے کہ اس سے پاکستان طالبان اور افغان طالبان متحد ہو کر پاکستان کے لیے سکیورٹی خطرہ نہ بن جائیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق، جنرل باجوہ نے افغان حکام کو یہ باور کرایا کہ پاکستان افغانستان میں ہر اس امن منصوبے کا حامی ہے جس کی قیادت اور ملکیت افغان قوم کے ہاتھوں میں ہو، اور تمام سٹیک ہولڈرز کا اس پر باہمی اتفاق رائے موجود ہو۔

دوسری طرف یہ بھی واضح ہے کہ افغان قیادت پاکستان پر اعتماد نہیں کرتی۔ رواں ماہ چار مئی کو امریکی جریدے ’فارن افئیرز‘ میں افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے لکھے گئے ایک اداریے میں پاکستان پر واضح طور پر الزام لگایا گیا تھا کہ افغان طالبان اب بھی پاکستان سے اسلحہ، تربیت اور امداد لے رہے ہیں، اور اسی کے بل بوتے پر طالبان کا خیال ہے کہ امریکہ اور دوسرے اتحادیوں کے افغانستان سے جانے کے بعد ان کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی۔

افغان صدر لکھتے ہیں: ’امریکی افواج کا افغانستان چھوڑنے کے فیصلے نے افغان طالبان اور ان کے پاکستانی مالکان کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔ اگر پاکستانی طالبان کی حمایت کرتا ہے تو اسے افغان دشمنی مول لینی ہو گی۔ اور بڑے اقتصادی فائدوں سے ہاتھ دھونا ہو گا۔ علاوہ ازیں، پاکستان عالمی برادری کے غیظ وغضب کا نشانہ بھی بنے گا اور افغانستان کے مستقبل میں پاکستان اپنا مقام کھو دے گا۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ’پاکستان کے پاس اب بھی وقت ہے کہ اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔‘

’پاکستان طالبان پر دباؤ نہیں ڈال سکتے‘

افغان صدر کے ان بیانات کے تناظر میں پاکستانی فوج کے سربراہ کے موجودہ دورے کو افغانستان میں کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے، یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد میں مقیم معروف پاکستانی صحافی اور افغان امور کے ماہر طاہر خان سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان پاکستان سے توقع  رکھے ہوئے ہے کہ وہ امن کے قیام میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے طالبان پر دباؤ ڈالے۔

ان کا کہنا تھا: ’پاکستان اگرچہ خود افغانستان میں بدامنی کے خلاف ہے لیکن ان کے لیے طالبان کو قائل کرنا مشکل ہو گا کیونکہ ضروری نہیں ہے کہ طالبان پاکستان کی ہر بات مانیں گے۔ ماضی میں پاکستان نے افغان  طالبان کی لیڈرشپ کو جیلوں میں ڈالا۔ لیکن جب وہ رہا ہوئے تو وہ امن عمل میں شامل نہیں ہوئے۔ پاکستان یہ بھی سمجھتا ہے کہ اگر دباؤ ڈالا گیا تو کہیں  پاکستان طالبان اور افغان طالبان متحد ہو کر پاکستان کے لیے سکیورٹی خطرہ نہ بن جائیں۔‘

  ایک معروف افغان صحافی انیس الرحمٰن سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے سربراہان ماضی میں بھی اس طرح کے دورے کرتے رہے ہیں، لیکن افغان عوام اور سیاسی رہنما پچھلے ریکارڈ کی بنیاد پر حالیہ دورے کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور وہ تبھی اس پر یقین کریں گے جب عملی طور پر کچھ نظر آئے گا۔

ان کا کہنا تھا: ’بے اعتباری کی اس فضا کی اصل وجہ 90 کی دہائی سے لے کر 2014 کے صدر اشرف غنی کے انتخاب تک افغانستان پر گزرے حالات اور اس میں پاکستان کا کردار ہے۔ افغانستان کے عوام کے ذہنوں میں پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں اور ان کا طالبان کے ساتھ تعلق کےحوالے سے منفی سوچ پائی جاتی ہے۔‘

انیس الرحمٰن کے مطابق، ’پاکستان نے افغانستان کی ہر مشکل وقت میں امداد کی ہے، ان کے ترقیاتی کاموں میں کافی سرمایہ کاری بھی کی ہے لیکن جب بھی افغانستان میں امن کی بات آئی، پاکستان طالبان کے حوالے سے اپنی ساکھ بحال رکھنے اور امن لانے میں ناکام رہا۔‘

پاکستان کے وزیر آعظم عمران خان کے گذشتہ سال نومبر میں دورہ کابل سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا قائم ہوئی تھی اور افغان حکومت نے اس دورے کو تاریخی دورہ بھی قرار دیا تھا اور توقع ظاہر کی تھی کہ پاکستان طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کر لے گا اور تشدد میں کمی آ جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہی پیغام افغانستان کے چیف ایگزیکیٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی پاکستان میں اپنے دورے کے وقت دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان توقع رکھتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں مستقل امن کے قیام کے لیے افغان طالبان کی بجائے جمہوری قوتوں کا ساتھ دے گا۔ تاہم افغان تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایسا نہ ہو سکا اور ہر بار ان کی امیدوں پر پانی پھرتا رہا۔

پاکستان کا کردار پہلے سے زیادہ اہم

افغانستان میں بڑھتی بدامنی کے تناظر میں دفاعی تجزیہ نگار اور افغان امور کے ماہر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمد ایاز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس پورے خطے کے امن اور استحکام کے لیے پاکستان کا کردار پہلے سے زیادہ اہمیت حاصل کر چکا ہے۔

ان کے مطابق ’اگر پاکستان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے میں ناکام ہوتا ہے تو افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ نتیجتاً 80 کی دہائی کی طرح مہاجرین پاکستان کا رخ کریں گے، جن کو قابو کرنا پاکستان کے لیے مشکل ہو جائے گا۔‘

 بریگیڈئیر ایاز کے مطابق مذکورہ بالا وجوہات کی روشنی میں پاکستان بھی افغانستان کے اندر امن لانے کا خواہاں ہے، کیونکہ افغانستان کے اندر استحکام اور امن ہی پاکستان کے حق میں بہتر ہے۔

افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا اور وہاں افغان حکومت اور افغان طالبان کا کسی حتمی فیصلے پر متفق ہونے کے لیے پچھلے آٹھ مہینے سے جاری مذاکرات میں کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ اختلاف رائے اس قدر زیادہ ہے کہ طالبان نے حال ہی میں استبول میں افغان امن عمل کے حوالے سے منعقد کی گئی ایک کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کر دیا۔

 ایسے میں مستقبل کے کئی ایک پیچیدہ معاملات کو طے کرنے کے لیے دونوں کا کسی نتیجے پر پہنچنا ایک نہایت دشوار گزار مرحلہ ہوگا  جس میں سالہا سال لگ سکتے ہیں۔

متذکرہ حالات کے تناظر میں مشترکہ مفادات رکھنے والے ممالک نے پیش قدمی اختیار کی ہے تاکہ مذاکرات میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

امریکہ نے بھی طالبان کے کانفرنس میں شمولیت سے انکار کے بعد اقوام متحدہ سے درخواست کی ہے کہ وہ خود اس عمل میں حصہ لیتے ہوئے طالبان کو اپنے رویے میں لچک لانے کے لیے قائل کریں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ افغانستان دورے کے حوالے سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب تک دونوں ممالک میں اعتماد کی فضا قائم نہیں ہو گی، جنگ بندی نہیں ہو گی، تب تک  امن مذاکرات اور افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا مشکل ہوگا۔

 اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، افغان طالبان اب بھی افغانستان میں ایک بڑے حصے کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہیں اور مغربی طاقتوں کی مدد سے چلنے والی افغان حکومت کے متوازی ایک نظام قائم کیے ہوئے ہیں۔

تاہم، افغان سیاسی لیڈرشپ نے اپنے حالیہ بیانات میں یہ واضح کیا ہے کہ افغان افواج اپنی زمینی حقائق سے آگاہ ہیں اور اس کے دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

’طالبان زبردستی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں‘

امریکی انخلا کے بعد افغان طالبان بہ زور بندوق مزید کتنا کنٹرول حاصل کر لیں گے اس سوال کے جواب میں طاہر خان نے کہا کہ اگر حالات کو دیکھا جائے تو صلح کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

ان کے بقول: ’طالبان کے حوالے سے اقوام متحدہ کہتا آ رہا ہے کہ تقریباً 80 ہزار طالبان اور 20 ہزار ان کے حامی ہیں جنہوں نے افغانستان کے ایک بڑے حصے کا کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔ تاہم دوسری جانب افغان حکومت کو نہ صرف ابھی تک امریکی اور اتحادی افواج کا تعاون حاصل ہے بلکہ اب وہ خود بھی زیادہ تر فضائی کارروائیاں کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ اب تک اس جنگ میں طالبان کو بھی کافی نقصان ہوا ہے۔ دوسری جانب افغان سیاسی لیڈرشپ متعدد بار واضح کر چکی ہے کہ اگر طالبان نے زبردستی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی تو یہ ان کے حق میں بہتر نہیں ہو گا، اور یہی پیغام وہ پاکستان کے ذریعے انہیں پہنچانا چاہتے ہیں۔‘

 افغانستان میں جہاں ایک جانب امن کی باتیں ہو رہی ہیں وہاں دوسری جانب حالیہ دنوں میں افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اور گذشتہ دو دنوں میں دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والے واقعات میں سینکڑوں زخمی اور 60 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔

تاہم افغانستان کے بیشتر حصے پر قابض طالبان نے عید الفطر کے موقعے پر تین دن کی جنگ بندی کا اعلان بھی کیا ہے اور تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان فوج کے سربراہ کے حالیہ کابل دورے سے توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو جنگ بندی میں طول دینے پر آمادہ کر سکیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان