راج کپور، دلیپ کمار کے مکان: دعویداروں کی آخری تاریخ

خیبر پختونخوا کی حکومت دلیپ کمار اور راج کپور کے آبائی مکانوں کو اپنی ملکیت میں لینے کے آخری مراحل میں ہے اور دنوں مکانوں کے موجودہ مالکان کو نوٹس بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔

 صوبائی حکومت نے کپور حویلی کے چھ مرلہ زمین کی قیمت ایک کروڑ 50 لاکھ روپے لگائی ہے (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

خیبر پختونخوا حکومت نے دلیپ کمار اور راج کپور کے آبائی گھروں کی ملکیت پر دعویٰ کرنے والوں کے لیے 18 مئی کی آخری تاریخ مقرر کرکے اس کو اپنی ملکیت میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس مد میں دونوں گھروں کے مالکان کو حتمی نوٹسز بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔

صوبائی حکومت نے کپور حویلی کی چھ مرلہ زمین کی قیمت ایک کروڑ 50 لاکھ روپے لگائی ہے جس میں زمین کی قیمت ایک کروڑ 15 لاکھ اور اس پر تعمیر حویلی کی قیمت 34 لاکھ 73 ہزار 280 لگائی ہے۔ بالی ووڈ کے دوسرے لیجنڈری اداکار دلیپ کمار کے قصہ خوانی بازار میں واقع چار مرلہ مکان کی قیمت 72 لاکھ 80 ہزار 658 روپے جبکہ کہ اس کی آبادی کی قیمت سات لاکھ 76 ہزار 38 روپے لگائی ہے۔

مجموعی رقم جو کہ لگ بھگ دو کروڑ 30 لاکھ بنتی ہے محکمہ آثار قدیمہ نے ضلعئی انتظامیہ کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی ہے، جو باقاعدہ طریقہ کار کے ذریعے اس رقم کو مالکان کے حوالے کرے گی۔

واضح رہے کہ کپور حویلی سے متعلق نہ صرف قیمتوں کا تنازع رہا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً مختلف لوگوں نے اس کی ملکیت کی دعویداری بھی ظاہر کی تھی، جس کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے ان مکانات پر سیکشن 17 نافذ کر دیا۔

اس موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر میوزیم وآثار قدیمہ ڈاکٹر عبدالصمد نے کہا کہ 18 مئی تک حکومت کی جانب سے سیکشن 17 لاگو رہے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرا شخص ان مکانات کا دعویٰ رکھتا ہے تو وہ طے شدہ تاریخ تک دعویداری کی درخواست جمع کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’اس تاریخ کے گزرنے کے بعد حکومت جس وقت چاہے ان مکانات کو اپنے قبضے میں لے سکتی ہے،کیونکہ 1894 کے ’اراضی حصول ایکٹ‘  کی دفعہ 17 کے تحت حکومت کسی بھی اراضی پر عوامی فلاح کی خاطر قبضہ کر سکتی ہے۔ لہذا اس قبضے کے بعد مالکان کے پاس مکانات نہ بیچنے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔‘

گذشتہ سال انڈپینڈنٹ اردو کی کپور حویلی پر رپورٹ

 
 

ڈائریکٹر آثار قدیمہ و میوزئم نے بتایا کہ بالی ووڈ کے اداکاروں کے آبائی مکانات کے موجودہ مالکان کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے البتہ اگر رقم میں تھوڑی اونچ نیچ ہو تو اس پر بات ہو سکے گی۔

دوسری جانب، کپور حویلی کے مالکان نے حکومت سے حویلی کے عوض دو ارب روپے جب کہ دلیپ کمار کے مکان کے مالک گل رحمن مہمند نے تین کروڑ 50 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا ہے۔

دونوں مکانات کے مالکان نے کئی مرتبہ ان مکانات کو گرانے اور ان پر کمرشل پلازہ تعمیر کرنے کی کوشش بھی کی ہے تاہم حکومت نے اس اقدام کو ہر بار روکا ہے۔ 2014 میں اس وقت کی حکومت نے دونوں مکانات کو قومی ورثہ قرار دیا تھا۔

ڈاکٹر عبدالصمد نے کپور حویلی اور دلیپ کمار کے مکان کی قیمت لگ بھگ دو کروڑ 30 لاکھ مقرر کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی حکومت اس طرح کی پراپرٹی خریدتی ہے تو وہاں زمین کی فی مرلہ قیمت معلوم کی جاتی ہے۔

’پھر اس اراضی کی قیمت کا تعین اس پر جمع کرائے گئے ٹیکس سے کیا جاتا ہے۔ پانچ سال سے جمع کرائے گئے ٹیکس کا ’یکسالہ‘ نکال کر اس کا اوسط معلوم کرکے جو قیمت بنتی ہے حکومت اسی کی ادائیگی کی مجاز ہوتی ہے۔‘

مکانوں کی بحالی کیسے ہوگی؟

محکمہ آثار قدیمہ ان معروف اداکاروں کے آبائی مکانات کی بحالی کا کام کس طرح سرانجام دینے کا منصوبہ رکھتا ہے، اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالصمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محکمے کا ایک کنزرویشن یعنی بحالی کا محکمہ ہے جہاں ماہرین کی ایک پوری ٹیم اس کام میں حصہ لیتی ہے۔

ان کے مطابق: ’اس ٹیم میں سول انجینیئرز، مٹیریل ایکسپرٹ، آرکیالوجسٹ، فائن آرٹسٹ، ڈرافٹ مین اور سٹرکچرل انجینیئر ہوتے ہیں، اور ہر ایک کے ذمے اپنا کام ہوتا ہے۔‘

عبدالصمد کے مطابق دلیپ کمار مکان اور کپور حویلی کی بحالی کے لیے وہ کنزرویشن ڈیپارٹمنٹ کی مستند اور ماہر ٹیم سے ہی استفادہ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جن کا کام 18 مئی کے بعد قبضہ لینے کے فوراً بعد شروع ہو جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’پہلے مرحلے میں قبضہ لینے کے بعد ڈرافٹ مین ان عمارتوں کی موجودہ ہئیت کے مطابق ان کے نقشے بنائے گا، دوسرے مرحلے میں تمام ٹیم بیٹھ کر اس موضوع پر بحث کرے گے کہ عمارتوں کے کتنے حصے پر بحالی کا کام کرنا ہے۔ اس کے بعد ایک تجویز کردہ نقشہ بنے گا۔ پھر مٹیریل ٹیسٹنگ کا مرحلہ آتا ہے کہ کس طرح کی لکڑی، اینٹ اور مواد ان عمارتوں میں استعمال ہوا ہے۔‘

ڈائریکٹر میوزیم ومحکمہ آثار قدیمہ نے مزید بتایا کہ یہ سب کام ڈائریکٹر کی نگرانی میں ہوتے ہیں، جو تمام کاموں کا جائزہ لے کر متعلقہ ماہرین  اور ہنرمندوں کے کام پر مبنی رپورٹس صوبائی حکومت کے ساتھ موضوع بحث لاتے ہیں۔

’عمارت کی مضبوطی کے تمام پہلوؤں کا جائزہ ایک سٹرکچرل انجینیئر لیتا ہے، ان عمارتوں کو مضبوط بنانے کے لیے سٹرکچرل انجینیئر ایک تھری ڈی ماڈل بنائیں گے۔ آرٹسٹ اس کی خوبصورتی کے پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے نقشہ بنائیں گے۔‘

ڈاکٹر صمد نے بتایا کہ ایسی قدیم عمارتوں کے لیے ہنرمند مزدور اکثر خیبر پختونخوا میں ناپید ہوتے ہیں لہذ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ سے ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔

ڈاکٹر صمد کے مطابق، ’ان عمارتوں میں وزیری اینٹ استعمال ہوتی ہے جو اب خیبر پختونخوا میں نہیں ملتی لہذا یہ اینٹ پنجاب کی بھٹوں سے بنوائی جائے گی۔ قدیم زمانے میں ان عمارتوں میں پٹ سن، چونا اور دیگر چیزیں استعمال ہوتی تھیں وہ اب بھی استعمال ہوں گی تاہم اس کو تیار کرنے میں دس دن لگتے ہیں۔ کھڑکیوں اور روشندانوں کا رنگ برنگا شیشہ پنجاب یا باہر سے منگوایا جائے گا۔‘

محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق اس تمام پراجیکٹ پر تقریباً دو سال کا عرصہ لگ سکتا ہے جب کہ اس کی لاگت کا تخمینہ بھی پوری ٹیم کی جانب سے سرسری تخمینہ جمع کرنے کے بعد ہی لگایاجا سکے گا۔

دلیپ کمار اور راج کپور کے آبائی گھروں کی بحالی کے بعد صوبائی حکومت ان مکانات کو سیاحوں کے لیے کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں ان اداکاروں کی فلمی زندگی سے متعلق سامان رکھا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان