بلوچستان: سیاست میں گرما گرمی، ’باپ‘ میں فارورڈ بلاک بن گیا

بلوچستان کے سابق وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے رویے سے ناراض اتحادی جماعتوں اور بلوچستان عوامی پارٹی کے وزرا اسمبلی سپیکر سمیت جلد مستعفیٰ ہوجائیں گے۔

سیاسی امور پر ںظر رکھنے والے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورت حال سیاست میں کوئی تحریک پیدا کرنے کی کوشش ہے تاکہ وزیر اعلیٰ جام کمال پر کوئی دباؤ بڑھایا جائے۔  (جام کمال فیس بک پیج)

بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) میں فاروڈ بلاک اور ناراض اراکین کی بازگشت اب حقیقت بنتی نظر آرہی ہے اور ناراض رکن اسمبلی اور سابق وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی نے باپ پارٹی کے وزرا کے مستعفی ہونے کے ارادے کی تصدیق کردی ہے۔ 

سیاستدان اور سابق وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی، جنہیں ان کے عہدے سے وجہ بتائے بغیر ہٹایا دیا گیا تھا، نے گذشتہ رات ضلع لسبیلہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے رویے سے وزرا ناراض ہیں، اور جلد استعفیٰ دیں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ اتحادی جماعتوں اور بلوچستان عوامی پارٹی کے وزرا  سپیکر عبدالقدوس بزنجو سمیت جلد مستعفیٰ ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا تھا، ’ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ نمبر گیم حاصل کرکے اپوزیشن کو بھی ساتھ ملالیں۔‘ 

سردار صالح بھوتانی نے کہا کہ وزرا کے استعفے سامنے آنے کے بعد نئی حکومت کی قیام کے لیے لائحہ عملے طے کریں گے۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے الیکشن میں حصہ لینا ہر ایک کا حق ہے اور امید ہے کہ اس بار نئے عہدیدار سامنے آئیں گے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ پارٹی کے اندر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ 

یاد رہے کہ بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم ہے، جس میں اکثریتی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر سردار یار محمد رند بھی وزیر اعلیٰ جام کمال سے اختیارات کے حوالے سے ناراضگی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے کہ جب وزیر اعلیٰ بلوچستان نے موجودہ ناراض رکن اسمبلی سردار صالح بھوتانی سے استعفیٰ لیا تھا، تو اسے بھی صوبے میں تبدیلیوں کا باعث قرار دیا گیا۔ تاہم صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے سردار صالح بھوتانی سے قلمدان واپس لینے کے بعد کابینہ میں مزید تبدیلیوں کی افواہوں کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کابینہ بہتر انداز میں حکومتی امور انجام دے رہی ہے، اور وزیر بلدیات کو ہٹانےکا مطلب مزید تبدیلی نہیں ہے۔ 

اس وقت بلوچستان اسمبلی میں 65 اراکین میں سے بلوچستان عوامی پارٹی کے 24، پاکستان تحریک انصاف کے سات، عوامی نیشنل پارٹی کے چار، بی این پی عوامی کے دو، ہزارہ ڈیموکریٹک  پارٹی کے دو، جے ڈبلیو پی کے ایک، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 11، بی این پی مینگل کے 11، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ایک، مسلم لیگ ن کے ایک اور ایک آزاد رکن شامل ہیں۔ 

ادھر بلوچستان کے سیاسی امور پر نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ سردار صالح بھوتانی کی پریس کانفرنس اور سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ سپیکر اسمبلی قدوس بزنجو کے دعوؤں کے باوجود وزیر اعلیٰ جام کمال کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ 

یاد رہے کہ سپیکر عبدالقدوس بزنجو کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس چار وزیر ہیں، جو جلد استعفیٰ دیں گے۔ 

سیاسی امور پر ںظر رکھنے والے تجزیہ کار اور  صحافی شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورت حال سیاست میں کوئی تحریک پیدا کرنے کی کوشش ہے تاکہ وزیر اعلیٰ جام کمال پر کوئی دباؤ بڑھایا جائے۔ 

 

شہزادہ ذوالفقار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شاید قدوس بزنجو سابق ادوار میں جب مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر اور وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری کو ہٹایا گیا تھا اس طرح کی صورت حال پیدا ہوجائے۔ 

انہوں نے کہا کہ جب 2017 میں نواب ثنااللہ زہری کی حکومت تھی تو اس وقت انہوں نے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کا جلسہ کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں ہوا تھا جس کی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے میزبانی کی تھی جس پر مقتدر حلقے ناراض ہوگئے تھے اور پھر تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا۔ 

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد 14 اراکین کے دستخطوں کے ساتھ دو جنوری 2018 کو اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی تھی۔ اس پر تحریک عدم اعتماد پر ایک آزاد رکن اسمبلی کے علاوہ مسلم لیگ ق، جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مجلس وحدت مسلمین اور نیشنل پارٹی کے ارکان شامل تھے۔

شہزادہ ذوالفقار کے بقول: ’اس وقت نواب ثنااللہ کے ساتھ موجود لوگوں کو ایک ایک کرکے حمایت چھوڑنے کا کہا گیا اور ہم نے دیکھا کہ جس پر انہیں سب سے زیادہ بھروسہ تھا وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے اور انہوں نے عبدالقدوس بزنجو کی حمایت کی تھی۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ موجودہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال سے وزرا کے اختلافات رہے ہیں، جیسے سردار سرفراز ڈومکی کے رہے اور بعد میں ثالثی کے ذریعے معاملات طے کرائے گئے۔ 

وہ مزید کہتے ہیں کہ سردار صالح بھوتانی کے اختلافات واضح ہیں، جو اس وقت سپیکر سپیکر عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ ہیں، لیکن اس کے علاوہ کوئی مدد اگر ہے تو وہ واضح نہیں ہے۔ 

ان کے مطابق: ’اس وقت جو تحریک سامنے آئی اس کے کرداروں میں سے اہم کردار وزیر خزانہ ظہور بلیدی کا بھی سامنے آرہا تھا لیکن عید سے قبل ان کی وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ملاقات ہوئی تھی۔ شنید میں آیا کہ ان کے معاملات طے پاگئے ہیں۔‘

شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ سردار صالح بھوتانی اور عبدالقدوس بزنجو  کی کوششوں کو اس وقت دھچکا لگا جب ان کے ساتھ سمجھے جانے والے ظہور بلیدی نے ٹویٹ کرتے ہوئے اس سارے معاملے سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ 

انہوں نے کہا کہ اگر ناراض گروپ کے ساتھ ظہور بلیدی بھی ہوتے اور آئندہ بجٹ پیش نہ کرتے تو شاید کچھ مسئلہ پیدا ہوجاتا، لیکن ان کی تردید نے ان کی کوششوں کو مزید کمزور کردیا ہے۔ 

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف بھی جام کمال کے خلاف نہیں اور سردار یار محمد رند کے قریبی ذرائع بھی بتاتے ہیں کہ ان کے وزارت کے اختیارات کا مسئلہ وفاقی وزیر اسد عمر کے ذریعے حل کیا جارہا ہے، جنہیں وزیر اعظم عمران خان نے فوکل پرسن بنایا ہے جو سردار یار محمد رند کے تحفظات جاننے کے بعد جام کمال سے بات کرکے معاملات طے کروائیں گے۔ 

شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ اس موجودہ صورت حال میں سردار یار محمد رند شامل تو نہیں لیکن وہ اس بات سے خوش ہیں کہ وزیر اعلیٰ جام کمال پر دباؤ رہے تاکہ ان کے مسائل کا حل بھی اس کی وجہ سے نکل سکے۔ 

وہ مزید بتاتے ہیں کہ اس سے قبل کہا گیا کہ سردار سرفراز ڈومکی بھی اس گروپ کے ساتھ ہیں، لیکن ذرائع بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ معاملات بھی طے پاگئے ہیں، تو اس وقت ہمیں صرف سپیکر عبدالقدوس بزنجو اور سردار صالح بھوتانی اکٹھے نظر آتے ہیں۔ 

یاد رہے کہ موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال کو معاملہ فہم بھی سمجھا جاتا ہے، جس کی واضح مثال ان کے اختلاف رکھنے والے وزرا کے استعفیٰ دینے کے بعد ان کے ساتھ معاملات طے کرکے اپنے ساتھ ملانا بھی ہے۔ 

دوسری جانب جب سردار صالح بھوتانی کے استعفے دینے کے اعلان کے حوالے سے بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں اور صوبائی حکومت کے ترجمان سے رابطہ کر کے موقف لینے کی کوشش کی گئی، تو ان کی طرف سے کوئی جواب نہں ملا۔ 

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جب تک وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی حکومت کو مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل ہے، کچھ وزرا کے استعفیٰ دینے سے انہیں فرق نہیں پڑے گا۔ جبکہ اس وقت مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی بلوچستان عوامی پارٹی کی ضرورت ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان