امریکی فوجی اڈوں سے متعلق وضاحت پارلیمان میں پیش کرنے کا مطالبہ

پاکستان کی جانب سے امریکی فوج کو اڈے دینے کے حوالے سے خبر چھپنے کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے وضاحت کی ہے ان خبروں میں صداقت نہیں، تاہم سیاسی رہنما اسے غیر تسلی بخش قرار دے رہے ہیں۔

 پاکستانی دفتر خارجہ نے پاکستان کی جانب سے  امریکہ کو اڈے دینے کی خبر کی تردید کی ہے  (ریڈیو پاکستان)

میڈیا میں پاکستان کی جانب سے امریکہ کو زمینی و فضائی اڈے فراہم کرنے کی رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں تاہم اپوزیشن کے رہمنا خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ یہ وضاحت ناکافی اور غیرتسلی بخش ہے۔

میڈیا میں چھپنے والی کچھ رپورٹس کے بعد دفتر خارجہ نے ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں امریکہ کی کوئی فوجی یا ایئر بیس نہیں ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی نیا معاہدہ کیا گیا ہے۔

گذشتہ روز ایک انگریزی اخبار میں چھپنے والی ایک خبر میں کہا گیا تھا کہ انڈو پسیفک امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری برائے دفاع ڈیوڈ ایف ہیلوی نے امریکی سینیٹ کی فوج سے متعلق کمیٹی میں کہا ہے کہ پاکستان نے امریکی افواج کو اپنی سرزمین پر استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے تاکہ امریکہ انخلا کے بعد بھی افغانستان میں اپنی موجودگی قائم رکھ سکے۔

تاہم پیر کو اس حوالے سے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ نے اس کی تردید کی۔  

ترجمان دفتر خارجہ زاہد خفیظ نے واضح کیا کہ پاکستان امریکہ ایئر اور گراؤنڈ لائن کمیونیکیشن معاہدہ 2001 سے جاری ہے جس کے تحت اب افغانستان سے انخلا کے وقت امریکی افواج زمینی اور فضائی راستہ استعمال کرسکتی ہیں لیکن اس کا مطلب اڈے فراہم کرنا نہیں ہے۔

انہوں نے میڈیا کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’پاکستان میں امریکی فوجی یا ایئر بیس سے متعلق خبریں بے بنیاد ہیں۔‘

انہوں غیر ذمہ دار خبریں دینے سے گریز کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کا ایئر لائن کمیونیکیشن اور گراؤنڈ لائن کمیونیکیشن کا معاہدہ پہلے سے ہے اور اس  معاملے پر امریکہ کے ساتھ کوئی نیا معاہدہ نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر عسکری ذرائع نے بتایا کہ چونکہ افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے اس لیے امریکہ فوجی دستوں کے لیے سمندری راستہ اختیار نہیں کر سکتا اور افغانستان کے دیگر سرحدی ممالک سے امریکہ کے تعلقات کی نوعیت ایسی نہیں کہ وہ ان سے یہ رعایت لے سکے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ جس معاہدے کا ذکر دفتر کارجہ نے کیا وہ افغانستان پر امریکی حملے کے وقت ہوا تھا جس کے تحت امریکی فوج کو زمینی اور فضائی راستہ فراہم کیا گیا تھا۔

افغان میڈیا میں بھی گذشتہ روز دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ امریکہ پاکستان کے قبائلی ضلع کرم میں پاکستان افغان سرحد کے قریب شلوزان اور ترمینگل کے علاقے میں فوجی اڈا بنا رہا ہے۔

 افغانستان کی ’پژواک‘ نیوز ایجنسی اور ’کابل نیوز‘ نے اپنی رپورٹس میں کہا کہ امریکہ نے پاڑہ چنار میں فوجی اڈا بنانا شروع کر دیا ہے۔ تاہم پاکستانی حکام نے ان کی تردید کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذرائعے کے مطابق  پہلے شمسی بیس بھی دی گئی تھی لیکن 2011 میں سلالہ حملے کے بعد شمسی ہوائی اڈا امریکی افواج سے واپس لے لیا گیا تھا، اور 2001 میں کیے گئے فضائی اور زمینی راستے کی رسائی کے معاہدے میں بھی ترمیم کر دی گئی تھی۔

انہوں کا کہنا تھا: ’یہ پرانا معاملہ ہے جو ایسے ہی چلا آ رہا ہے ابھی اس میں نیا ایشو کیا ہے؟‘

26  نومبر 2011 کو امریکی سربراہی میں نیٹو کی فورسز نے پاکستان افغانستان سرحد پر واقع پاکستانی چوکیوں پر حملہ کیا تھا جس میں 24 پاکستانی فوجی جان سے گئے تھے۔ اس حملے کے بعد 11 دسمبر 2011 کو امریکہ سے بلوچستان میں واقع شمسی ہوائی اڈا خالی کروا لیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کے مطابق امریکی سینیٹ آرمز سروسز کی کمیٹی میں اسسٹنٹ سیکرٹری برائے دفاع ڈیویڈ ہیلوی سے سوال کیا گیا کہ پاکستان اور خصوصاً پاکستانی اینٹیلجنس ایجنسیوں سے امریکہ کی مستقبل میں کیا توقعات ہیں، جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان میں اہم کردار ہے اور پاکستان نے افغان امن عمل کی حمایت کی ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے ہمیں ہوائی راستہ استعمال کرنے کی اجازت دی اور افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کے لیے رسائی بھی فراہم کی۔

اس معاملے پر پیر کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی  بحث ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے پینٹاگون کے اس بیان پر سوال اٹھایا اور حکومت سے وضاحت کا مطالبہ کیا۔

اس پر وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے ایوان میں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا واضح موقف ہے کہ افغانستان کا مسئلہ افغان قوم اور افغان ریاست کو خود حل کرنا ہے۔ بیرونی طاقتیں صرف سہولت کاری کا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کو ایئر سپیس دینے کے بارے میں پالیسی کی تفصیلات وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جمعرات کو ایوان میں خود دیں گے۔ 

اسی طرح حزب اختلاف پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے بھی ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ 2001 میں طے پانے والے جس معاہدے کی بات دفتر خارجہ نے کی، اس کے بارے میں بتایا جائے کہ اس معاہدے کے میعاد کیا تھی۔

ان کے بقول امریکہ نے ایسا بیان کیوں جاری کرنے کی ضرورت پڑی کہ پاکستان نے اس کی فوج کو اڈے فراہم کرنے کی رضامندی دی ہے۔

خواجہ سعد رفیق کے مطابق اگر امریکہ سے ایئر اور گراؤنڈ لائن کمیونیکیشن پر کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوا تو کیا پرانے معاہدے کی تجدید ہوئی، اور اگر ہوئی تو کس نے کی؟

انہوں نے پارلیمان میں قومی سلامتی سے متعلق اس اہم اور حساس معاملے کی وضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان