’وہ مجھے پکڑنے آگئے ہیں‘: مالی کے صدر، وزیراعظم فوج کی حراست میں

فوج کے حمایت یافتہ وزرا سے قلم دان واپس لینے پر حکومت سے ناراض فوجی افسران نے ملک کے عبوری وزیر اعظم اور صدر کو حراست میں لے لیا جس کے بعد ایک اور فوجی بغاوت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

مغربی افریقہ کے ملک مالی میں فوجی افسروں نے ملک کے عبوری صدر اور وزیراعظم کو حراست میں لے کر ایک فوجی حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا، جس کے بعد عالمی برادری نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے ان کی جلد رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکومت میں فوجی حمایت یافتہ وزرا کی تبدیلیوں سے ناخوش فوجی افسران نے پیر کو ملک کے عبوری صدر اور وزیر اعظم کو دارالحکومت باماکو کے باہر ایک فوجی حراستی مرکز میں منتقل کر دیا۔ 

صدر باہ نداو اور وزیراعظم مختار وان کی حراست کے بعد مالی میں ایک اور فوجی بغاوت کی تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ حراست میں لیے گئے صدر اور وزیراعظم اس عبوری حکومت کی سربراہی کر رہے تھے جو فوج کا اقتدار ختم ہونے کے بعد قائم ہوئی تھی۔

فوج نے اگست میں ہونے والی بغاوت کے اختتام پر اقتدار سول حکمرانوں کے حوالے کیا تھا۔ ایسا علاقائی سطح پر پابندیوں کے خطرے کے پیش نظر کیا گیا۔

مالی میں فوجی بغاوت کی قیادت کرنے والے اور فوجی افسران کو حکومت میں نمایاں اثرورسوخ حاصل تھا جس سے اگلے سال کے شروع میں عام انتخابات کروانے کا ان کا وعدہ مشکوک ہو گیا تھا۔

مالی حکومت کے دو اعلیٰ عہدے داروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ فوجی صدر باہ نداو اور وزیر اعظم مختار اون کو دارلحکومت باماکو کے مضافات میں قائم کاتی کے فوجی کیمپ میں لے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ ملک کے صدر اور وزیراعظم کو حراست میں لیے جانے سے پہلے پیر کی شام  حکومت میں حساس نوعیت کی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ یہ تبدیلیاں عبوری حکومت پر تنقید کے جواب میں کی گئیں۔

وہ اہم قلمدان مالی کی فوج کے پاس ہی ہیں جو اس نے گذشتہ انتظامیہ میں سنبھالے تھے لیکن فوجی بغاوت میں شامل دو رہنماؤں سابق وزیر دفاع سادیو کامارا اور سابق وزیر سلامتی کرنل موبیدو کونے کو تبدیل کر دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت میں یہ تبدیلیاں اس وقت بھی کی گئی ہیں جب دارالحکومت باماکو میں سیاسی چیلنجز میں اضافہ ہو رہا ہے اور وعدے کے مطابق اصلاحات کی ڈیڈلائن پوری کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔

پیر کی شام باماکو کے قریبی علاقوں میں فوجی بغاوت کی افواہیں گردش کرتی رہیں تاہم شہر میں نسبتاً سکون دکھائی دیا۔

اے ایف پی نے وزیراعظم اون سے ٹیلی فون پر مختصر بات کی جس کے بعد لائن کٹ گئی۔ انہوں نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ فوجی ’انہیں لینے کے لیے آ گئے ہیں۔‘

دوسری جانب اقوام متحدہ، افریقی یونین، مغربی افریقی ملکوں کی اقتصادی تنظیم (ای سی او ڈبلیو اے ایس)، یورپی یونین ،امریکہ اور برطانیہ نے مالی کے سیاست دانوں کی حراست کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی پر زور دیا۔ 

یورپی یونین نے منگل کو مالی کے صدر اور وزیراعظم کی گرفتاری کو سول قیادت کا ’اغوا‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔  یورپی کونسل کے صدر چارلز مشیل نے27 ملکوں کے قومی سربراہوں کے سربراہ اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں کہا: ’جو کچھ ہوا وہ تشویشناک اور سنجیدہ ہے اور ہم ضروری اقدامات پر غور کے لیے تیار ہیں۔‘

مالی کے نوجوان فوجی افسروں نے 18 اگست 2020 کو ملک کے سابق صدر ابراہیم کیتا کو اقتدار سے الگ کر دیا تھا جس کے بعد عبوری حکومت قائم کر دی گئی۔

اس سے پہلے شہریوں نے حکومتی سطح پر بدعنوانی کے خلاف کئی ہفتے تک مظاہرے کیے تھے۔ مظاہرین کا الزام تھا کہ حکومت اسلامی عسکریت پسندی کو بھی روکنے میں ناکام رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی افریقہ