’پاکستان صرف ایران کو خوش کر کے بڑے خطرات نہیں مول لے سکتا‘

پاکستان کی جانب سے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کرنے سے معذرت کے بعد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

ایرانی مزدور  چاربہار صوبے میں پاکستان ایران پائپ لائن پر کام کر رہے ہیں۔  فائل تصویر: اے پی 

پاکستان کی جانب سے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کرنے سے معذرت پر ایران نے عالمی عدالت میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جہاں پاکستان کو اس فیصلے کے نتیجے میں بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑسکتا ہے، وہیں اس کے پاس ایران کے ساتھ کام نہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان اس منصوبے پر کام کرنے میں رکاؤٹ اس وقت پیش آئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی صنعتی دھات پر پابندیاں لگا دیں اور ساتھ ہی امریکہ نے عالمی برادری کو خبردار کیا کہ ایران کے ساتھ  کام کرنے والے ممالک پر بھی پابندیاں لگا دی جائیں گی۔

اس فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے انٹر سٹیٹ گیس کے مینیجنگ ڈائریکٹر مبین صولت نے اسی ہفتے واضح کیا کہ امریکہ کی جانب سے ایران پر پابندیاں لگنے کی وجہ سے فی الحال گیس منصوبے پر کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ لہذا انہوں نے جمعے کو باضابطہ طور پر ایران کو اس فیصلے سے مطلع کر دیا۔

پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن معاہدہ کیا ہے؟

اس منصوبے کو امن پاِئپ لائن بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان میں یہ ایک متنازعہ منصوبہ بن چکا ہے۔

 یہ منصوبہ تاپی یعنی ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا گیس پائپ لائن معاہدے سے الگ ہے۔ اول الذکر میں گیس سیدھی ایران سے پاکستان میں داخل ہوگی جبکہ تاپی پائپ لائن منصوبے میں گیس ترکمانستان سے افغانستان کے راستے ہوتی ہوئی پاکستان آئے گی۔

پاکستان ایران منصوبے کا آغاز 1995 میں ہوا تھا۔ لیکن بعد میں ایران کی خواہش پر بھارت بھی اس کا حصہ بن گیا۔ تاہم بھارت نے بعد میں امریکہ کے ساتھ جوہری ڈیل پر دستخط کرنے کے بعد اس منصوبے سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

 پاکستان اور ایران نے 16 مارچ، 2010 کو انقرہ میں مفاد عامہ کے پیش نظر پاک ایران گیس معاہدے پر ختمی دستخط کیے تھے۔ دو طرفہ معاہدے کی رو سے یہ طے کیا گیا کہ اگر پاکستان اس منصوبے کو 2014 کے آخر تک مکمل نہیں کرتا تو اس پر یومیہ 10 لاکھ ڈالر جرمانہ عائد ہو جائے گا جو تب تک لاگو رہے گا جب تک پاکستان اس منصوبے کو مکمل نہیں کر دیتا۔

 ایران نے اپنے حصے کا کام وقت پر مکمل کر دیا تھا لیکن پاکستان کی جانب سے پہلے یہ کہا گیا کہ نجی کاروباری لوگ اس منصوبے میں دلچسپی نہیں لے رہے اور پاکستان کے پاس اتنے فنڈ زنہیں ہیں۔ بعد میں امریکہ کی جانب سے ایران سے برآمدات اور درامت پر پابندیاں لگنے کی وجہ سے پاکستان نے مزید ہاتھ روک لیے۔

اس تمام  صورتحال پر مختلف تجزیہ کاروں نے سیاسی، معاشی و خارجہ پالیسی کے نقطہ نظر سے انڈپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان کیوں اس معاہدے سے پیچھے ہٹ گیا ہے اور اس قدم سے اس کو کیا فائدہ یا نقصان ہوگا۔

’پاکستان کو اربوں ڈالر دینے پڑ سکتے ہیں‘

خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز میں معاشیات کے پروفیسر سید وقار حسین شاہ نے کہا کہ پاکستان میں صنعت، کیمیائی کھاد، ٹرانسپورٹ اور گھریلو ضرورت کے لیے بجلی اور گیس دونوں استعمال ہوتے ہیں، جو کہ پاکستان میں ناکافی ہونے کی وجہ سے انتہائی مہنگے ہیں۔

ان کے مطابق، اسی وجہ سے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ زیادہ ہوتی ہے جس کا سب سے بڑا نقصان صنعتوں کو پہنچتا ہے۔ ان کی کارکردگی متاثر ہونے سے پاکستان کا انحصار زیادہ تر درآمدات پر ہے۔ درآمدات کے لیے بیرونی زر مبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے جو یا تو کسی ملک کی برآمدات پر بڑھتی ہے یا بیرون ملک مقیم عوام کے اپنے ملک پیسے بھیجنے سے۔

انہوں نے بتایا: ’ہم بجلی اور گیس میں کمی کے باعث برآمدات نہ بڑھا سکے جس کا خمیازہ ہمیں قرضوں کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے، اور سعودی عرب اور چین سے قرضہ لینا پڑ رہا ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ ہر قرضہ دینے والے کی اپنی شرائط بھی ہوتی ہیں۔‘

پروفیسر شاہ نے کہا کہ چونکہ پاکستان معاہدہ میں فریق ہے لہذا اس سے دستبردار ہونے پر پاکستان کو اربوں ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔

’ایران اور پاکستان کے درمیان  پینلٹی شق کے تحت کیے گئے معاہدے میں کہا گیا تھا کہ اگر پاکستان کسی طرح سے اس منصوبے کو انجام تک پہنچانے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اسے جنوری 2015 سے یومیہ 10 لاکھ ڈالر دینے ہوں گے۔ایرانی قوم بہت غیور ہے وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارا کرنے والی قوم ہے لیکن مسئلہ پاکستان کا ہے۔‘

ایران پر پابندیاں

امریکہ کی جانب سے ایران پر پہلی تجارتی پابندی 1979 میں لگائی گئی تھی ۔ اس کے بعد صدر رونلڈ ریگن نے 1987 میں ایران کی جانب سے خلیج فارس میں امریکی فورسز کے خلاف شدت پسندی اختیار کرنے پر پابندیاں لگائی تھیں۔

2006 میں اقوام متحدہ نے ایران کے خلاف ایک قرارداد پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا یورینیم افزودگی کا پروگرام روک دے کیونکہ مغربی ممالک کو خدشہ تھا کے ایران کے لیے اس پروگرام سے ایٹمی ہتھیار بنانا ممکن ہو جائے گا۔

ایران کی طرف سے بات نہ ماننے پر اس کو دوبارہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ یہ تمام پابندیاں ایران کی تجارتی اشیا پر لگائی جاتی ہیں ۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد 2018 میں امریکی ایران  جوہری ڈیل سے الگ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر پابندیاں لگائی تھیں۔ جس کے بعد    ایک مرتبہ پھر اسی ہفتے بدھ کو ایران کی دھاتی مصنوعات پر پابندیاں لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تہران کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی تو اس پر مزید پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ دوسری جانب ایران اپنے رویے پر ڈٹے رہنے پر بضد ہے اور یہ اعلان کیا ہے وہ امریکہ کے سامنے نہیں جھکے گا۔

’پاکستان خطرات نہیں مول لے سکتا‘

دفاعی تجزیہ کار محمد آیاز خان   نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان ایران گیس منصوبہ شاید 2014 تک مکمل ہو جاتا، لیکن دہشت گردی کی بڑھتی لہر نے اس منصوبے کو روکے رکھا۔

ان کے مطابق پاکستان کی اولین ترجیح  اپنی حفاظت ہے۔’ پاکستان دہشت گردی  کی جنگ  میں پھنس کر امریکہ سے اسلحہ اور جدید دفاعی سامان و ہتھیار  کی خرید پر انحصار کرنے لگا، کیونکہ  امریکہ اسلحہ برآمد کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ  وزیر آعظم کے حالیہ ایران دورے کے بعد شاید ایران اور پاکستان  اس منصوبے کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچ بھی جاتے لیکن امریکہ کی جانب سے ایران پر دوبارہ  پابندیاں   لگنے کی وجہ سے پاکستان پیچھے ہٹ گیا۔

’اس وقت پاکستان کا معاشی لحاظ سے تقریباً دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ان حالات میں پاکستان  صرف ایران کو خوش کر کے بڑے خطرات نہیں مول لے سکتا۔‘

ماہر بین الاقوامی تعلقات عدنان سرور نے کہا کہ پاکستان کے اپنے ہمسایوں سے اچھے تعلقات نہیں رہے ہیں، اس کی خارجہ پالیسی کمزور ہےاور اس پر امریکہ اور سعودی عرب کا دباؤ ہے۔

ان کے مطابق ایران کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کو بہت زیادہ فائدہ پہنچ سکتا تھا۔

’پاکستان کو نہ صرف وافر مقدار میں 30 سال کے لیے قدرتی گیس مل جاتی، جس سے پاکستان، افغانستان اور بھارت میں ڈیڑھ ارب لوگ مستفید ہوتے، بلکہ ایران میں تیل کے بہت بڑے ذخائر سے بھی فائدہ مل جاتا۔‘

’ایران نے تو یہ تک کہا تھا کہ وہ سرحد پر آباد علاقوں کو مفت بجلی بھی دے گا۔ لیکن پاکستان کی کمزور اقتصادی صورتحال اسے وہ فیصلے کرنے پر مجبور کر رہی ہے جس سے عارضی فائدہ اور دور رس نقصانات ہوں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان