صحافی اسد علی طور پر حملے کا مقدمہ درج، تحقیقاتی ٹیم تشکیل

گذشتہ رات اسلام آباد میں مقیم صحافی اسد علی طور کے گھر میں تین حملہ آوروں نے زبردستی داخل ہو کر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

 اسد علی طور نے پولیس کو بتایا ہے کہ ان پر حملہ کر نے والے لوگ مسلح تھے (تصویر: اسد علی طور فیس بک)

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں مقیم صحافی اور یو ٹیوب ولاگر اسد علی طور پر نامعلوم افراد کے حملے کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، جبکہ واقعے کی تحقیقات کے لیے آئی جی پولیس قاضی جمیل الرحمان نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے، جو واقعے میں ملوث ملزمان کا سراغ لگانے کے لیے تمام سائنسی اور فارنزک طریقے استعمال کرے گی۔

ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی براہ راست نگرانی میں کام کرنے والی اس تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ایس پی صدر ہوں گے، جبکہ دیگر ارکان میں ڈی ایس پی رمنا، ڈی ایس پی سپیشل برانچ اور ایس ایچ او شالیمار شامل ہیں۔

اسد علی طور، جو اپنے انداز تحریر اور وی لاگز کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، کو منگل کی رات  نامعلوم افراد نے حملہ کر کے زخمی کر دیا تھا۔ 

اس واقعے کا مقدمہ شالیمار تھانے میں اسد علی طور کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ 

عدالتی رپورٹنگ اور حکومت اور ریاستی اداروں پر تنقیدی تحریروں اور ویڈیوز کے لیے مشہور اسد علی طور پر کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر پاکستانی اداروں بالخصوص فوج پر تنقید کرنے، پوسٹس اور تبصرہ کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔  

سینئیر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے بدھ کی صبح ایک ٹویٹ میں کہا کہ اسد علی طور کو کافی دنوں سے دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں۔ ’اور آخرکار دھمکیاں دینے والوں نے اپنا کام دکھا دیا یہ جس نے بھی کیا ہے اس نے اسد طور کے ہاتھ پاؤں باندھ کر دراصل پاکستان کے میڈیا کی اصل حالت دنیا پر واضح کر دی ہے۔‘ 

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ تقریباً ایک مہینے کے دوران وفاقی دارالحکومت میں صحافیوں پر ہونے والا یہ دوسرا حملہ ہے۔

اس سے قبل 20 اپریل کو سینئیر صحافی اور پیمرا کے سابق چئیرمین ابصار عالم کو ان کی رہائش گاہ کے قریب ایک نامعلوم حملہ آور نے فائرنگ کر کے زخمی کر دیا تھا۔ 

اسد علی طور کی ہسپتال میں پولیس اہلکاروں سے گفتگو کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شئیر کی گئی ہے، جس میں وہ اپنے اوپر ہونے والے حملے کی تفصیلات بتاتے رہے ہیں۔ 

پولیس اہلکار یاسر نے کہا کہ اسد علی طور پر حملہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں ایک رہائشی عمارت میں پیش آیا، جہاں حملے کا نشانہ بننے والے صحافی کی رہائش ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سی سی ٹی وی فٹیج کے مطابق  تین افراد اسد علی طور کے فلیٹ میں زبردستی داخل ہوئے اور ان کے ہاتھ پیر باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ 

اسد علی طور نے پولیس کو بتایا ہے کہ ان پر حملہ کر نے والے لوگ پستولوں سے مسلح تھے، جو ان پر تشدد کرنے میں بھی استعمال کیے گئے، جبکہ انہیں لوہے کے پائپ سے بھی مارا گیا۔ 

اسد علی طور نے ویڈیو میں بتایا کہ حملہ آور ان کو مبینہ طور پر ملنے والے  فنڈز کے ذرائع سے متعلق پوچھتے رہے۔ ’میں نے کہا کہ مجھے کوئی فنڈز نہیں ملتے، میرا بینک اکاؤنٹ دیکھا جا سکتا ہے، جس میں میری تنخواہ کے علاوہ کوئی پیسے نہیں آتے۔‘

واقعے کے بعد عمارت میں لگے سی سی ٹی وی کیمرہ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں، جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اسد علی طور پر حملہ تین افراد نے کیا، جنہوں نے اپنے چہرے ماسک سے چھپائے ہوئے تھے، اور صحافی پر تشدد کرنے کے بعد وہ وہاں سے فرار ہو گئے۔ 

سی سی ٹی وی کی فوٹیج میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اسد علی طور زخمی حالت اور بندھے پاؤں کے ساتھ اپنے فلیٹ سے باہر نکلتے ہیں اور لابی میں پہنچ کر مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ 

اسد علی طور پر حملے کی خبر عام ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر صحافیوں، حکومتی اہلکاروں اور سیاستدانوں نے واقعے کی مذمت کی۔  

وزارت اطلاعات و نشریات کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے اسد علی طور پر کیے گئے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ایس ایس پی اسلام آباد کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اس حملے کی فوری تحقیقات کریں۔ 

پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بدھ کی صبح اسد علی طور پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے آزادی صحافت اور پریس پر حملہ قرار دیا۔ 

ایچ آر سی پی کی ایک ٹویٹ میں حکومت سے واقعے میں ملوث افراد کی فوراً گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔
 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان