دینی مدارس کے لیے سکالر شپ: اندراج کا مسئلہ یا بیرونی دباؤ؟

خیبر پختونخوا حکومت کے اس منصوبے کی کل مالیت چھ کروڑ روپے رکھی گئی ہے اور اس سے سالانہ 1500 طالب علم مستفید ہو سکیں گے۔

پاکستان میں 30 ہزار سے زائد مدرسوں  کا جال بچھا ہوا ہے، جن کی بعض علاقوں میں تعداد سرکاری و نیم سرکاری سکولوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔(فائل   تصویر: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا حکومت نے رجسٹرڈ دینی مدارس کے طلبہ کی مالی معاونت کے لیے  پہلے سے موجود ’رحمت اللعالمین سکالرشپ‘ کی طرز کے وظائف دینے کا اعلان کیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ماہ رمضان میں خیبر پختونخوا کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ایک خصوصی ملاقات کے دوران ’رحمت اللعالمین سکالرشپ‘ کی طرز پر وظائف کو مدارس کے ہونہار اور مستحق طلبہ تک وسعت دینے کی تجویز دی تھی۔

 وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے وزیر اعظم کے احکامات کے مطابق اتوار (23 مئی کو) محکمہ اوقاف ومذہبی امور کے حکام کے ساتھ ایک اجلاس کے دوران اس فیصلے کو عملی شکل دینے کی ہدایات دیں اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ دینی مدارس میں پڑھنے والے عامہ، خاصہ، عالیہ، عالمیہ، تخصص فی القرآن، حدیث، فقہ اور دوسرے شعبوں کے ہونہار ومستحق طالب علموں کو یہ وظائف دیے جائیں گے۔

خیبر پختونخوا حکومت کے اس منصوبے کی کل مالیت چھ کروڑ روپے رکھی گئی ہے اور اس سے سالانہ 1500 طالب علم مستفید ہو سکیں گے۔

سکالرشپ کی تفصیلات کے مطابق، مدرسوں میں مختلف درجات میں پڑھنے والے طالب علموں کو دس سے 30 ہزار تک کے سالانہ وظائف جاری کیے جائیں گے اور صوبے کے رجسٹرڈ مدارس میں مستحق طلبہ کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے گا۔

اس منصوبے پر بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ محمود خان کے مشیر کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وزیر اعظم کی جانب سے صوبوں کو احکامات کے بعد خیبر پختونخوا اور پنجاب حکومت نے اس منصوبے پر کام کرنے میں پہل کی جبکہ خیبر پختونخوا حکومت اب اسے دینی مدارس تک توسیع دینے کا فیصلہ بھی کر چکی ہے تاکہ ان بچوں کو بھی قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔‘

محکمہ اوقاف و حج، اقلیتی و مذہبی امور خیبر پختونخوا کے پلاننگ آفیسر سجاد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے محکمے کے ذریعے ’صوبائی حکومت اس سے قبل بھی رجسٹرڈ مدارس کے طلبہ کو ’مدارس سکالرشپ‘ کے نام سے وظائف دیتی رہی ہے،‘ تاہم انہوں نے کہا کہ ’اس وظیفے کا دائرہ کار زیادہ وسیع نہیں تھا اور یہ ایک طالب علم کو تین سال کے لیے ایک مرتبہ ہی دیا جاتا تھا۔‘

’سالانہ مختلف دینی درجوں کے 60 طلبہ کو میرٹ کی بنیاد پر ہر سال دس سے 30 ہزار تک کے وظائف دیے جاتے تھے، جو وصول کنندہ کے نام پر ہی جاری کیے جاتے تھے۔‘

پلاننگ آفیسر نے کہا کہ نئی تجاویز کے مطابق: ’اب یہ وظائف طلبہ کی بجائے ان مدارس کو جاری کیے جائیں گے، جہاں یہ مستحق طلبہ دینی علوم حاصل کر رہے ہیں۔‘

’مدارس کے طلبہ وظائف لینے میں عار محسوس کرتے ہیں‘

نوشہرہ میں واقع مشہور دارالعلوم حقانیہ کے ترجمان حزب اللہ جان سے جب طلبہ کے اخراجات اور اس حکومتی اقدام کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عموماً نادار گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچے ہی دینی مدارس کا رخ کرتے رہے ہیں، جن کے قیام، طعام، کتب اور سفری اخراجات میں سے بیشتر ضروریات کی ذمہ داری خود مدارس اٹھاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومتی مالی معاونت کی ضرورت ہر ادارے کی طرح دینی مدارس کو بھی رہی ہے، لہذا خیبر پختونخوا حکومت کا یہ اقدام خوش آئند ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک تو حکومتی وظائف کے حوالے سے مدارس میں زیادہ شعور نہیں  ہے اور جن طلبہ کو معلوم بھی ہے، وہ یہ وظائف لینے میں عار محسوس کرتے ہیں۔‘

حزب اللہ جان کے مطابق: ’اس عار کی وجہ لفظ مستحق ہے اور بوجہ خود داری وہ ایسے وظائف لینے سے ہچکچاتے ہیں۔ پاکستان نے ماضی میں مدارس کو اتنی توجہ نہیں دی ہے اور سالانہ بجٹ میں ان کے لیے کوئی حصہ مقرر نہیں کیا جاتا، یہی وجہ ہے کہ ایک خلا پیدا ہوگیا ہے۔‘

انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت کے نئے اقدامات سے یہ خلا ختم ہو جائے گا اور ایک مثبت سوچ پیدا ہوگی۔

پاکستان میں 30 ہزار سے زائد مدرسوں  کا جال بچھا ہوا ہے، جن کی بعض علاقوں میں تعداد سرکاری و نیم سرکاری سکولوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

وفاق المدارس کے ناظم امتحانات مولانا عبدالمجید نے سکالرشپ کے موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ادارے کے ساتھ خیبر پختونخوا میں چھ ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں، جن میں تقریباً دس لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں وفاق المدارس کے ساتھ رجسٹرڈ مدرسوں سے اس سال ساڑھے چار لاکھ طلبہ نے امتحانات میں حصہ لیا، جن میں 52 فیصد کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔‘ اس حوالے سے استفسار پر مولانا نے بتایا کہ ’پورے پاکستان میں زیادہ ترخیبر پختونخوا سے بچے دینی تعلیم کا رخ کرتے ہیں۔‘

مدرسوں کا اندراج اور بیرونی دباؤ

پشاور میں روزنامہ ڈان کے صحافی عارف حیات کے مطابق: ’حکومت کا حالیہ فیصلہ ان کاوشوں کی کڑی ہے، جن کے مطابق حکومت دینی مدارس کا اندراج کرنے کی سعی میں لگی ہے۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان مدارس کو اکثر نامعلوم ذرائع سے چندے اور عطیات ملتے رہے ہیں، لہذا اس فیصلے سے مدارس کا چندوں وغیرہ پر انحصار کم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ حکومت کو مدرسوں کی مالی لین دین و اخراجات کا حساب رکھنے میں بھی آسانی ہوگی۔‘

اپریل 2018 میں صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے نوشہرہ میں واقع دارالعلوم حقانیہ کو تقریباً 300 ملین روپے کی مالی امداد کا اعلان کیا تھا، جس پر اس وقت کی صوبائی حکومت پر کافی تنقید ہوئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر کامران بنگش سے جب یہ سوال پوچھا کہ کہیں یہ موجودہ اقدام اسی سلسلے کی کڑی تو نہیں ہے جس میں حکومت پر شدت پسند عناصر کی سرپرستی کا الزام لگ چکا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’تحریک انصاف کی حکومت ملک کے تمام تعلیمی اداروں، چاہے عصری ہوں یا دینی، میں پڑھنے والوں کو برابر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔‘

’یہ وظائف اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے مستحق طلبہ کو دیے جائیں گے، لہذا اس پر تنقید کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ وزیراعظم ہمیشہ سے اس بات کے قائل رہے ہیں کہ مدارس کے بچوں کو بھی مرکزی دھارے میں لانا چاہیے۔‘

پاکستان میں دینی مدارس اور حکومت وقت کے درمیان اندراج کے معاملے پر ہمیشہ تناؤ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان میں مدرسوں کی تاریخ پر لکھی  گئی کتاب ’مدرسہ میراج‘ کے مصنف عظمت عباس کے مطابق پاکستان میں 30 ہزار سے زائد جبکہ دوسرے اندازوں کے مطابق پاکستان میں 60 ہزار مدرسے کام کر رہے ہیں، جن سے 25 لاکھ طالب علم مستفید ہورہے ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان وقتاً فوقتاً مدرسوں کے نصاب میں جدت اور ان میں پڑھنے والے طلبہ کو جدید تعلیم دینے کی بات پر زور دیتے آئے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ان کی حکومتی پالیسی کا ہمیشہ سے حصہ رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان