اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک کمرہ عدالت میں بجلی نہیں تھی، پنکھے بند تھے اور جو یو پی ایس چل رہے تھے ان سے صرف اتنا ہی ہوا کہ بلب روشن رہے اور سماعت جاری رہی۔
یہ منظر تھا سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کا، جس کے لیے مریم نواز دن تقریباً ساڑھے 12 بجے کے بعد عدالت پہنچیں مگر ان سے پہلے ہی کمرہ عدالت میں سیاسی کارکنان اور وکلا نے جگہ گھیر رکھی تھی۔
ہجوم اتنا تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، اوپر سے بجلی بھی گئی، ایسے میں ایک خاتون کارکن دس منٹ تک پاکستان کے سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کو دستی پنکھے سے ہوا دیتی رہیں۔
بعد میں نہ جانے ایک وکیل کو کیا خیال آیا کہ انہوں نے کمرہ عدالت میں موجود پرنٹ مشین سے کاغذ لا کر مریم نواز کو دیا کہ وہ کاغذ سے پنکھا بنا لیں۔
اس موقع پر مریم نواز تنہا نہیں تھیں بلکہ مسلم لیگ ن کی قیادت میں سے محمد زبیر، مریم اورنگزیب، ثانیہ عاشق، حنا بٹ اور دیگر رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
کمرہ عدالت میں تمام کارکنان اور وکلا کی کوشش یہی تھی کہ ایک بار وہ مریم نواز کے سامنےآ جائیں اور انہیں چہرہ دِکھا سکیں تاکہ ان کے علم میں ہو کہ وہ ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے عدالت آئے ہیں۔
اس دوران شاید سینئر رہنما مسلم لیگ ن محمد زبیر کو بھی یہی خیال آیا اور وہ اپنی نسشت سے اٹھے، مریم کی نشست تک گئے اور احوال پوچھا۔
ایسے میں ایک طرف وکلا کے دلائل جاری تھے تو دوسری جانب مسلم لیگ ن کی قیادت باتوں میں مصروف تھی۔
مریم نواز کی ذاتی سکیورٹی کے لیے متعین مرد و حضرات بھی آس پاس تھے اور جب بھی کوئی صحافی یا عام شخص مریم نواز سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو وہ ٹوک دیتے۔
بار بار روکنے پر تنگ آ کر نجی ٹی وی سے وابستہ صحافی عدیل نے پوچھا کہ ’یہ کون ہیں جو روک رہے ہیں؟‘ ساتھ کھڑی صحافی نے بتایا: ’یہ مسلم لیگ ن کی ٹرپل ون بریگیڈ ہے جو سکیورٹی پر متعین ہے۔‘
خیر اس سب میں مریم نواز نے اپنے وکلا اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز سے کیس کے بارے میں مشاورت کرنے کے لیے 20 منٹ نکالے، مشاورت تو جاری رہی، لیکن ساتھ ہی ساتھ مریم نواز کے ہاتھ میں پیلے رنگ کی ڈیجیٹل تسبیح کے نمبر بھی آگے بڑھتے رہے۔
دوسری طرف کا حال کچھ یوں تھا کہ صحافی روسٹرم کے پاس اور مریم نواز کی نشست کے قریب ہی کھڑے تھے تاکہ کوئی خبر مل سکے لیکن وکلا کو مریم نواز کے ساتھ سیلفیاں بنانے کی جلدی تھی اور اسی چکر میں انہوں نے صحافیوں کو دھکے دیے جس سے تکرار ہوئی۔
مریم نواز کی غیر رسمی گفتگو
عدالتی کارروائی کے آغاز سے قبل مریم نواز نے عدالت میں موجود صحافیوں کے سوالات کے جواب بھی دیے۔
اس موقع پر پاکستان کی جانب سے امریکہ کو ’فوجی اڈے دینے‘ کے حوالے سے مریم نواز نے کہا کہ ’امریکہ اڈے مانگ نہیں رہا بلکہ عالمی میڈیا سے پتہ چل رہا ہے کہ حکومت امریکہ کو فضائی اڈے دے چکی ہے۔‘
اب مریم نواز جہاں موجود ہوں وہاں پی ڈی ایم کے بارے میں کم از کم ایک سوال تو بنتا ہی ہے اور وہ ہوا بھی جس پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’پی ڈی ایم میں کوئی اختلاف نہیں، سب کا ایک ہی نظریہ ہے اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا وہی موقف ہے جو نواز شریف کا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پھر انہوں نے کچھ عرصے قبل پی ڈی ایم سے الگ ہونے والی جماعت پیپلز پارٹی کو شاید پھر سے یاد دلانے کی کوشش کی کہ ’پیپلز پارٹی اب پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے، میرا نہیں خیال کہ اس پر اب مزید کوئی بحث کرنی چاہیے۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے کیس کے حوالے سے بھی بات ہوئی اور مریم نواز نے کہا کہ ’یہ صرف صدیقی صاحب کا کیس نہیں ہے بلکہ بہت الارمنگ بات ہے، آج جسٹس شوکت صدیقی ہیں کل کسی اور جج کی باری آئے گی، اس لیے کیس سننے والے ججوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اپنی عدلیہ کا ساتھ دیں اور کسی دباؤ میں نہ آئیں۔‘
جب وہاں موجود صحافی سوال کر ہی رہے تھے تو انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے بھی ایک سوال پوچھا گیا اور وہ صحافی حامد میر کے حوالے سے تھا جس پر انہوں نے کہا کہ ’حامد میر نے اگر اپنے کہے پر معافی مانگ لی ہے تو یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے، جو انہوں نے بہتر سمجھا وہ کر لیا۔‘
مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری جماعت کے لوگوں سے بھی رابطہ کر کے کہا جاتا ہے کہ جماعت چھوڑ دیں لیکن مسلم لیگ ن کو وہ نہیں توڑ سکے، گذشتہ پانچ سال سے یہ کوشش جاری ہے۔‘
اتنی دیر میں ججز کی کمرہ عدالت میں آمد ہوئی تو عدالتی عملے نے صحافیوں اور غیر رسمی گفتگو کو روک دیا۔
عدالتی کارروائی کی تفصیلات
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پرمشتمل دو رکنی بینچ نے نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر سماعت کی۔
عدالتی معاون اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر کسی ملزم کی غیر موجودگی میں ٹرائل کو غلط قراردیا گیا ہے تو اس صورت میں اپیل کنندہ سامنے نہ ہو تو پھر اپیل بھی نہیں سننی چاہیے۔‘
اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ ’آپ یہ کہتے ہیں کہ غیرموجودگی میں ٹرائل بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے؟ نیب کہتا ہے اس اپیل کو اب میرٹ پر خارج کیا جائے لیکن یہ اپیل سماعت کے لیے منظور ہو چکی تھی، اب اپیل کرنے والے موجود نہیں تو کیا کریں؟‘
اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھ کر بات کروں گا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کیس اگر ان کے علاوہ کسی اور کا ہوتا تو آج تک یاد نہ رکھا جاتا۔ سیاسی کیسز نہ صرف قانون کی کتابوں میں بلکہ سیاسی تاریخ میں بھی کندہ ہوتے ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ غیرموجودگی میں ہائی کورٹ نے اپیلیں سن لیں پھر سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسی صورتحال میں وہ راستہ اپنانا چاہیے جس سے کسی کا نقصان نہ ہو۔ ایسے مقدمات کا ایک اثر ہوتا ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے اپنےادارے اور عدلیہ کا وقار عزیز ہے۔ نواز شریف کی نااہلی اور سزا دونوں اس وقت برقرار ہیں۔ اس وقت مزید ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے عدلیہ پر حرف آئے۔‘
عدالت نے مزید سوالات اٹھائے کہ ’کیا نواز شریف کا وکیل خود مقرر کرکے آگے بڑھا جا سکتا ہے؟‘ عدالتی معاون نے جواب دیا کہ ’قانون اجازت دیتا ہے کہ ملزم مرضی کا وکیل کرے۔ ریاست کا وکیل فراہم کرنا کچھ مخصوص حالات کے لیے ہی ہے۔ ان حالات میں ملزم کا خود عدالت موجود ہونا ضروری ہے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’نواز شریف کا غیر حاضری میں ٹرائل نہیں ہوا وہ ٹرائل کے دوران موجود تھے، انہیں اپنے دفاع کا موقع بھی ملا ہے، جب کہ اب معاملہ نواز شریف کی اپیل ان کی غیر موجودگی میں سننے کا ہے۔‘
عدالتی معاون نے جواب دیا کہ ’اگر عدالت غیر حاضری میں اپیل سنے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ سزا غلط ہوئی تو بری کرنے پر تنقید ہو گی۔ کہا جائے گا کہ وی وی آئی پی ٹریٹمنٹ دیا گیا ہے، اس کیس میں بری کرنےکے لیے جلدی کیوں کی گئی؟ اگر ایک لمحے کے لیے سوچ لیں کہ سزا برقرار رکھی جاتی ہے تو پھر اس پرعمل درآمد کیسے ہو گا؟ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حق بھی متاثر ہو گا۔‘
انہوں نے عدالت سے مزید کہا کہ ’اگر کیس کو یہیں روک دیا جائے تو فرق نہیں پڑے گا، کل کو نوازشریف واپس آئیں یا لایا جائے تو کیس آگے چلا لیں۔ اس عدالت کے سامنے عوام کے دیگر کئی کیسزموجود ہیں۔ ساری مشق کے بعد فیصلہ بھی ایسا آئے جس پر عملدرآمد نہ ہو سکے تو فائدہ؟‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’فیصلہ تو جو بھی ہم دیں اس پر تنقید تو ہوگی ہی، یہ سب سیاسی نوعیت کے سوالات ہیں، ہم قانونی نوعیت دیکھ رہے ہیں۔‘
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’نوازشریف کے دو شریک ملزمان بھی اس عدالت میں موجود ہیں۔ مریم اورکیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بھی انہی شواہد پر سزا ملی ہے۔ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر تو میرٹ پر اپنا کیس چلائیں گے ہی، تو انہی شواہد پر میرٹ پر ان دونوں کی اپیلوں پر فیصلہ ہو جائے تو پھر کیا ہوگا؟ ‘
عدالتی معاون نے ان نکات پر کہا کہ ’نوازشریف واپس آکر اپنا کیس پھر بھی الگ چلا سکتے ہیں، عدالت خود چاہے تو کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور مریم کی اپیلیں بھی فی الحال موخر کر دے۔‘
عدالت نے جواباً کہا کہ ’ایک ملزم کے موجود نہ ہونے پر دوسروں کا معاملہ تو التوا میں نہیں رکھا جا سکتا۔‘
دوسری جانب نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ نے عدالت میں دلائل دیے کہ ’نوازشریف کا حق سماعت پہلے ہی ختم کیا جا چکا ہے۔ اس عدالت نے ہر پہلو کا جائزہ لے کر ہی ایسا کیا تھا لہذا اب اس سٹیج پر نواز شریف کی اپیل خارج ہی کی جائے۔‘
عدالتی معاون اعظم نذیر تارڑ نے مزید عدالتی معاونت کے لیے مہلت طلب کر لی، جسے عدالت عالیہ نے منظورکرتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز کی اپیلوں پر سماعت 23 جون تک ملتوی کر دی۔