پاکستان میں بلوغت کی عمر یکساں نہ ہونے کے نقصان کیا ہیں؟

پاکستان میں بلوغت کی عمر کے مختلف قوانین ہیں جنھیں یکساں کرنے کے لیے آئین پاکستان میں ترمیم کا ایک بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔

کراچی کے ایک گیراج میں ایک بچہ میکینک کا کام کر ہا ہے۔  یونیسف کے ایک سروے میں چائلڈ لیبر کے طور پر کام کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد 33 لاکھ بتائی گئی ہے   (اے ایف پی فائل فوٹو)

جون 2015 کی ایک تپتی دوپہر تھی، جب ایک غیر سرکاری تنظم کے رضاکاروں نے لاہور کے علاقے تاج پورہ میں واقع گاڑیوں کی ورکشاپ میں ایک لاغر اور کمزور بچے کو کام کرتے دیکھا۔ 

بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم اینوویشن فاؤنڈیشن کے عہدے دار فرحان شبیر یاد کرتے ہیں: ’14 سالہ بچہ دیکھنے سے ہی نابالغ اور بیمار لگ رہا تھا، ہم نے اسے چن لیا، اسے ایف اے کروانے کے علاوہ کچھ تربیتی کورسز کروائے، آج وہ بالغ ہے اور ایک بہتر ملازمت کر رہا ہے۔‘ 

تاج پورہ کا یہ لڑکا تو بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو گیا، تاہم پاکستان میں ایسے کروڑوں بچے ہیں جو وسائل کی عدم موجودگی میں حصول علم سے دور اور کم عمری میں اپنی عمر سے کئی گنا بڑے کام کر رہے ہیں۔ 

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ سے زیادہ بچے سکول نہیں جا رہے جبکہ اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے یونیسف کے ایک سروے میں کم عمری میں چائلڈ لیبر کے طور پر کام کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد 33 لاکھ بتائی گئی ہے۔  

پنجاب کے شہر میانوالی سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان کا کہنا ہے کہ مختلف پاکستانی قوانین میں بلوغت کی عمر کے لیے حدود مختلف ہیں، جس کے باعث خصوصاً چائلڈ لیبر اور بچوں کی تعلیم سے متعلق حکومت کے لیے رکاوٹیں بڑھ جاتی ہیں۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’تمام قوانین میں تعلیم اور کام کرنے سے متعلق عمریں بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہونی چاہییں اور اس لیے ضروری ہے کہ آئین میں اس حد کو 18 سال کر دیا جائے۔‘ 

امجد علی خان نے اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی میں آئین پاکستان میں ترمیمی بل پیش کیا ہے، جس میں جبری ملازمت کے حوالے سے آرٹیکل 11 اور لازمی تعلیم کے حوالے سے آرٹیکل 25A میں عمر کی حد 18 سال کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ 

پاکستان میں بلوغت کی عمر 

سپریم کورٹ کے وکیل عمران شفیق کا کہنا ہے کہ مشرقی معاشروں میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص بلوغت کو بالکل الگ معنوں میں سمجھا جاتا ہے۔ 

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہمارے ہاں بعض جسمانی نشانیوں کے ظہور کو بلوغت سمجھا جاتا ہے اور عام طور پر اس کا تعلق رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے لیا جاتا ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مختلف مقاصد کے لیے بنائے گئے قوانین میں بلوغت کی عمریں (یا عمروں کی کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ حدود) مختلف درج ہیں۔

’شادی کے مقصد کے لیے چائلڈ میرج ایکٹ میں عمر کی حد 16 سال ہے جبکہ شناختی کارڈ بنوانے اور ووٹ ڈالنے کے لیے 18 سال کی عمر کے شہری کو بالغ تصور کیا جاتا ہے۔‘  

واضح رہے کہ گذشتہ سال سینیٹ میں منظور ہونے والے ایک قانون میں شادی کے لیے کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے۔ 

عمران شفیق نے مزید کہا کہ اس کے بالکل برعکس مغربی معاشروں میں ہر شعبہ زندگی کے لیے 18 سال کی عمر کو حد کے طور پر مقرر کر دیا گیا ہے، جن میں تعلیم، شادی، روزگار، شہریت اور دوسری حقوق و فرائض شامل ہیں۔ 

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے سپارک کے پروگرام آفیسر خلیل احمد کہتے ہیں کہ نہ صرف مختلف قوانین میں بلوغت کی عمر (یا عمر کی حد) مختلف ہے بلکہ چائلڈ لیبر کے حوالے سے صوبوں نے اپنی اپنی قانون سازی کر رکھی ہے۔ ’اور ہر صوبے میں خصوصاً چائلڈ لیبر سے متعلق عمر کی حدیں الگ الگ مقرر کی گئی ہیں۔‘ 

آئین پاکستان کیا کہتا ہے؟ 

روزگار سے متعلق عمر کا ذکر پاکستان کے آئین کے آرٹیکل (3)11 میں موجود ہے، جو 14 سال سے کم عمر کے بچوں کو کارخانوں، کان کنی اور ان جیسی دوسری خطرناک ملازمتوں میں جانے سے روکتا ہے۔ 

اسی طرح آرٹیکل (A)25 لازمی تعلیم کے لیے عمروں کی حدود مقرر کرتے ہوئے ریاست پاکستان کو ملکی قوانین کے مطابق پانچ سے 16 سال کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرنے کا پابند بناتا ہے۔ 

یعنی آئین پاکستان میں دو مختلف مقصد کے لیے عمروں کی دو الگ الگ حدود مقرر ہیں، جو اسی قانون کے تحت بننے والے دوسرے قوانین میں بالکل مختلف ہیں. تاہم قانونی ماہرین اس تفاوت کو آئین کے خلاف قرار نہیں دیتے۔ 

بلوغت کی عمر 18 سال کیوں ضروری ہے؟ 

اقوام متحدہ کی بچوں کے حقوق سے متعلق 2015 میں آنے والی پانچویں پیریاڈیکل رپورٹ میں پاکستان کے تمام قوانین میں عمر کی کم از کم حد کو 18 سال مقرر کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ 

پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں امجد علی خان کے پیش کیے جانے والے بلوغت کی عمر سے متعلق ترمیمی بل کی مخالفت نہیں کی۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تمام قوانین میں بلوغت کی عمر کا یکساں ہونا زیادہ کارگر اور مفید ثابت ہو گا اور حکومت اس کی مخالفت نہیں کرتی، جس کے بعد ترمیمی بل منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیج دیا گیا۔ 

ترمیمی بل کے محرک امجد علی خان کا کہنا تھا: ’ایک مرتبہ آئین میں بلوغت کی عمر 18 سال کر دی جائے تو وقت کے ساتھ باقی قوانین میں بھی تبدیلیاں کی جا سکیں گی۔‘ 

انہوں نے کہا کہ یورپی منڈیوں میں اکثر پاکستانی مصنوعات صرف اس لیے نہیں جا پاتیں کہ وہاں کے درآمد کنندگان ہمارے کارخانوں پر چائلڈ لیبر کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ’اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے قوانین میں عمروں کی حد ایک جیسی نہیں اور صنعت کار بھی کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ان تمام ابہاموں کا قلع قمع آئین پاکستان اور تمام قوانین میں عمر بلوغت 18 سال کر کے کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انٹیلیکچول بزنس مین فورم کے سربراہ میاں زاہد حسین نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی صنعتوں میں اب چائلڈ لیبر کی لعنت موجود نہیں۔ ’اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ غیر ملکی درآمد کنندگان جس پاکستانی کمپنی سے مال خریدتے ہیں ان کا آڈٹ بھی کرتے ہیں اور چائلڈ لیبر کی موجودگی کی صورت میں کاروبار نہیں کرتے۔‘ 

خلیل احمد کے خیال میں بلوغت کی عمر تمام قوانین میں 18 سال ہونے کے صنعتی کے علاوہ بھی کئی فوائد ہیں۔ 

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب لازمی تعلیم کے لیے عمر کی حد پانچ سے 18 سال ہو گی تو چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی ہو گی اور زیادہ بچوں کے سکول جانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

’جب بچے سکول جائیں گے تو تعلیم کے علاوہ وہاں ان کی ویکسینیشن ہو گی، ان کی پیدائش کا ریکارڈ بنے گا اور وہ ایک بہتر مستقبل پا سکیں گے۔‘ 

خلیل احمد کے خیال میں اس طرح کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ شکنی بھی ممکن ہو سکے گی جبکہ چھوٹی عمر میں کام کرنے والے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے کیسز میں بھی کمی آئے گی۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان