کراچی: کنویں میں پھنسے کتے کو 10 ماہ بعد نکال لیا گیا

محکمہ جنگلی حیات سندھ اور ایک این جی او نے مشترکہ ریسکیو آپریشن کے ذریعے کنویں میں 10 مہینے پہلے گرنے والے ایک کتے اور دو بلیوں کو بحفاظت باہر نکال لیا۔

کرین کی مدد سے کنویں میں پھنسے جانوروں کو باہر نکالا جا رہا ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

محلے کی آخری گلی میں گھروں اور ان کے آگے شروع ہونے والے کھیتوں کے درمیان گھنی جھاڑیوں کے پاس کھڑی بوم کرین کے ارد گرد دو درجن سے زائد خواتین، مرد اور بچے کھڑے ہیں۔

کرین کی بوم سے بندھی رسی جھاڑیوں کے درمیان سے آہستہ آہستہ اوپر آرہی ہے۔ رسی سے بندھے لوہے کے جنگلے میں جانوروں کو ریسکیو کرنے والے مخصوص کپڑے پہنے دو نوجوان کھڑے ہیں، جنہوں نے نیلے رنگ کے جال میں ایک کتے کو پکڑا ہوا ہے۔

جنگلے کے زمین سے اوپر آنے پر وہاں موجود خواتین، مرد اور بچے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ 

یہ مناظر کراچی کے ملیر ٹاؤن میں واقع میمن گوٹھ میں برطانوی دور کے ایک صدی پرانے 60 فٹ گہرے کنویں کے ہیں، جہاں محکمہ جنگلی حیات سندھ اور کراچی میں جانوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی نجی تنظیم عائشہ چندریگر فاؤنڈیشن (اے سی ایف) کے مشترکہ ریسکیو آپریشن کے بعد کنویں میں 10 مہینے پہلے گرنے والے ایک کتے اور دو بلیوں کو بحفاظت باہر نکال لیا گیا۔

کنویں کے سامنے والے گھر میں رہنے والے اختر شاہین نے بتایا کہ تقریباً 10 مہینے پہلے کتے کا ایک چھوٹا بچہ کنویں میں گرگیا تھا۔

’جب ہم محلے والوں کو پتہ چلا تو ہم نے روزانہ کنویں میں اسے کھانا دینا شروع کردیا۔ وہ دن میں کبھی کبھار بھونکتا تھا مگر رات کو بھونکنے کی آواز تیز ہو جاتی، جس سے ہمیں پتہ چلتا رہا کہ وہ ابھی تک زندہ ہے۔‘

اختر کے مطابق چند دن پہلے ان کے محلے میں محکمہ جنگلی حیات سندھ کے کچھ افسران آئے تو انہوں نے کتے سے متعلق آگاہ کیا۔ 

محکمے کے انسپکٹر ریسکیو آپریشنز نعیم احمد خان کے مطابق یہ اطلاع ملنے پر محکمے کے صوبائی کنزرویٹر جاوید احمد مہر اور اے سی ایف کی رضاکار وجیہہ احمد کی سربراہی میں ریسکیو آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 

وجیہہ احمد نے بتایا: ’چونکہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ کنواں کتنا گہرا ہے اور اس میں کتا زندہ بھی ہے یا نہیں، تو ہم نے پہلے دن کنویں کی گہرائی اور کتے کے زندہ ہونے کی تصدیق کے لیے ایک چھوٹا آپریشن کیا۔‘

’کنویں کے آس پاس کوڑا کرکٹ جمع ہے اور وہاں سے کنویں کے اندر دیکھنا ممکن نہیں اور اگر نزدیک جایا جائے تو اندر گرنے کا خدشہ تھا، اس لیے یہ آپریشن دو مراحل میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘

بقول وجیہہ: ’پہلے ہم نے اپنے رضاکاروں کی مدد سے ایک لمبے بانس کے ساتھ رسی باندھی، جس میں کیمرا لگایا گیا اور پھر رسی کو اندر پھینکا گیا۔

’کئی گھنٹے کی ویڈیو ریکارڈنگ دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ نہ صرف کتا زندہ ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک بلی بھی موجود ہے۔‘

’کنویں کے اندر کوڑا کرکٹ بھرا ہوا ہے اور یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ کچرے کے نیچے پانی ہے یا نہیں اور اگر ہے تو گہرائی کتنی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ بوم والی کرین سے رضاکاروں کو اندر اتار کر جانوروں کو باہر نکالا جائے، جو اسی دن ممکن نہیں تھا، لہٰذا ریسکیو دوسرے دن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ریسکیو آپریشن میں کنویں کے اندر جاکر جانوروں کو نکالنے کا کام اے سی ایف کے رضاکار الیاس اور راجو نے سرانجام دیا۔

الیاس نے بتایا: ’جب ہم کرین کی بوم سے بندھے لوہے کے جنگلے میں چڑھ کر اندر پہنچے تو ہم نے کنویں کے اندر ایک کتے اور ایک بلی کو دیکھا، جو ہمیں دیکھ کر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔

’ہم نے کھانا دے کر پہلے کتے کو باہر نکالا اور بعد میں ایک ایک کرکے دونوں بلیوں کو بھی باہر نکال لیا۔‘

نعیم احمد خان نے بتایا کہ کامیاب آپریشن پر محکمہ جنگلی حیات اور اے سی ایف والے بہت خوش ہیں کہ اتنے عرصے تک کنویں میں رہنے والے تین جانوروں کو زندہ سلامت باہر نکال لیا گیا۔

اختر شاہین نے حکومت سے اپیل کی کہ ’یہ کنواں ایک صدی پرانا ہے، جس سے اب پانی نہیں نکلتا، مگر یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے یہ خطرہ بنا ہوا اور کئی بار لوگ اس کنویں میں گرتے گرتے بچے ہیں، اس لیے اس کنویں کو بند کیا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا