ایران جوہری معاہدے پر ’فیصلے کا وقت قریب‘: یورپی سفارت کار

فرانس، جرمنی اور برطانیہ پر مشتمل ’ای تھری‘ گروپ کے ایک سینیئر سفارت کار کے مطابق: ’وفود اپنی قیادت سے مشاورت کے لیے اب دارالحکومتوں کا سفر کریں گے۔ ہم تمام فریقین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ویانا واپس آئیں اور کسی معاہدے کوطے کرنے کےلیے تیار رہیں۔‘

ویانا میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین 2015 کے جوہری معاہدے کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات کا ایک منظر (فوٹو: روئٹرز)

فرانس، جرمنی اور برطانیہ پر مشتمل ’ای تھری‘ گروپ کے ایک سینیئر سفارت کار کا کہنا ہے کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رہ سکتے اور جلد ہی اس پر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مذکورہ سفارت کار نے کہا: ’ہم پیش رفت کی جانب گامزن ہیں لیکن پھر بھی ہمیں مشکل ترین مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ وقت کسی کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ مذاکرات لامحدود نہیں ہوسکتے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’وفود اپنی قیادت سے مشاورت کے لیے اب دارالحکومتوں کا سفر کریں گے۔ ہم تمام فریقین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ویانا واپس آئیں اور کسی معاہدے کو طے کرنے کے لیے تیار رہیں۔ فیصلے کا وقت قریب آرہا ہے۔‘

ایران اور عالمی طاقتوں میں جوہری مذاکرات غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی

اس سے قبل ایرانی وفد کے سربراہ نے کہا تھا کہ تہران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ہونے والے مذاکرات اتوار کو ملتوی کر دیے گئے ہیں تاکہ تمام وفود کو اپنے اپنے ملک واپس جا کر اس حوالے سے مشاورت کا موقع مل سکے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران کے چیف مذاکرات کار عباس عراقچی نے ویانا میں ایرانی سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ ان مذاکرات میں سامنے آنے والے اختلافات کو سلجھانا آسان نہیں ہوگا، اس لیے تمام وفود کو اپنے دارالحکومتوں سے مشاورت کے لیے وقت کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’اب ہم پہلے کی نسبت کسی ممکنہ حل کے قریب تر ہیں لیکن ہمارے اور حتمی معاہدے کے مابین جو اختلافات موجود ہیں انہیں دور کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ہم آج رات (نئی ایرانی قیادت سے مشاورت کے لیے) تہران واپس لوٹ رہے ہیں۔‘

تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ باضابطہ مذاکرات کا دوبارہ آغاز کب ہوگا۔

انتہائی قدامت پسند امیدوار ابراہیم رئیسی نے جمعے کو ایران کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن ان کے صدر بننے کے باوجود جوہری معاہدے پر سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا فیصلہ ہی حرف آخر ہو گا کیوں کہ ملک کی تمام اہم پالیسیوں کے بارے میں ان کی رائے حتمی سمجھی جاتی ہے۔

امریکہ کو جوہری معاہدے میں واپس لانے اور ایران کی جوہری سرگرمیوں کو روکنے اور معاہدے کا پابند بنانے کے لیے ویانا میں اپریل سے ہی مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرمپ انتظامیہ نے 2018 میں یک طرفہ طور پر امریکہ کو اس معاہدے سے نکال لیا تھا اور تہران پر سخت پابندیاں عائد کردی تھیں۔ دوسری جانب ان کے جانشین جو بائیڈن اس معاہدے میں واپسی کا عندیہ دے چکے ہیں اور ان کی انتظامیہ کے مذاکرات کار ویانا میں ایران سے بلاواسطہ بات چیت میں مصروف ہیں۔

عباس عراقچی نے کہا: ’ان اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ایسے فیصلوں کی ضرورت ہے جو بنیادی طور پر دوسرے فریق یعنی واشنگٹن کو لینے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ مشکلات کے باوجود ہم اگلے مرحلے میں اس مختصر خلیج کو پار کرلیں گے۔‘

دوسری جانب خطے میں ایران کے حریف اسرائیل نے اتوار کو ایرانی صدارتی انتخاب میں قدامت پسند ابراہیم رئیسی کی کامیابی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’ظالموں کی حکومت‘ ہوگی، جس کے ساتھ عالمی طاقتوں کو کسی نئے معاہدے پر بات چیت نہیں کرنی چاہیے۔

واضح رہے کہ نئے اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیت نے اپنے پیشرو بن یامین نتن یاہو کی طرح ایران کے ساتھ کسی بھی جوہری معاہدے کی مخالفت کی ہے۔

بینیت نے ایک بیان میں کہا: ’ان (رئیسی) کا انتخاب ایٹمی معاہدے پر واپس آنے سے پہلے عالمی طاقتوں کے لیے بیدار ہونے اور یہ سمجھنے کا آخری موقع ہے کہ وہ کن کے ساتھ معاملات طے کرنے جا رہے ہیں۔‘

دوسری جانب نو منتخب ایرانی صدر رئیسی نے 1988 میں ہزاروں سیاسی قیدیوں کے مبینہ ماورائے عدالت قتل عام کے حوالے سے خود پر لگنے والے الزامات کے بارے کبھی بھی عوامی سطح پر وضاحت نہیں دی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا