مودی کی زہریلی حد بندی: کیا پاکستان لاجواب؟

پاکستان نے جو بین الاقوامی سطح پر خاص کر پچھلے چھ ماہ میں تقریبا ایک چپ سی اپنائی ہوئی ہے اس پالیسی اور اپنے موقف پر نظرثانی کرنی پڑے گی۔

کشمیری سیاست دانوں سے دہلی میں ملاقات کے دوران خوشگوار ماحول میں گفتگو (نریندر مودی ٹوئٹر اکاونٹ) 

تقریبا دو سال ہو گئے ہیں بھارت کو کشمیر کا بٹوارہ اور غیرقانونی تقسیم کیے ہوئے۔

بلاآخر مودی حکومت نے کشمیر کے چند سیاسی لوگوں کو بلا کر ایک طویل بیٹھک کی جس میں بھارتی وزیر اعظم نے ذاتی طور پر شرکت کی۔ اس تین گھنٹے طویل ملاقات کے بعد جو پیغام باہر آیا وہ یہ تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی سے قبل سیاسی حد بندی ہونی چاہیے۔

مودی حکومت کا ارادہ کچھ یوں ہے کہ پہلے ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے لیے حدبندی کی جائے اور اس کے تحت ریاست کی جو نشتیں ہیں انہیں بڑھا کر 90  کے قریب کر دیا جائے۔ اگر آبادی کو دیکھا جائے تو 68 فیصد مسلمان اور باقی غیرمسلم ہیں لیکن حدبندی کے بعد کشمیری براہمن اور سپیشل شیڈول کاسٹ ہے ان کی نشتیں ہی بڑھائی جائیں گی۔ اس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ کشمیری مسلمان اکثریت کی بجائے اقلیت بن جائیں گے۔

یہ پہلہ قدم ہو گا پھر انتخابات ہوں گے اور نریندر مودی کے گذشتہ دنوں بیان کے مطابق جو آخری قدم ہو گا جموں کشمیر کی وہ سٹیٹ ہوڈ، ریاستی حیثیت یا ریاستی تشخص کو کسی حد تک بحال کر دیا جائے گا۔ تو یہ حقائق ہیں اس غیرمعمولی اجلاس کے بعد اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

نریندر مودی کی کشمیریوں کے ساتھ ملاقات کے چار مقاصد تھے۔ نمبر ایک یہ کہ دہلی میں ہونے والی اس ملاقات کا اہم جز مودی کا کشمیریوں کی جدوجہد کو تہس نہس کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس کوشش میں وہ بعض کشمیریوں کو اپنے منصوبے کا قائل کرنا تھا یا اس منصوبے کے لیے ان کی رضا مندی حاصل کرنا تھی۔

نمبر دو یہ کہ  اس ملاقات کے ذریعے نریندر مودی دنیا کو اپنے جمہوریت پسند ہونے کا باور کروانا چاہتے تھے یہ کہہ کر  اب  وہ کشمیریوں سے نہ صرف یہ کہ حد بندی پر بات کر رہے ہیں بلکہ وہ ساتھ میں چاہتے ہیں کہ گراس روٹ سطح پر جموں کشمیر میں انتخابات کے ذریعے جمہوریت کو پروان چڑھایا جائے۔

تیسرا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ  بھارت کو اب کسی دباؤ کے تحت رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہندوستان اب اگست 2019 کے بعد کشمیر میں معمول کے حالات پیدا کرنے کی جستجو میں ہے۔ اور چوتھا مقصد یہ تھا کہ بیک چینل سے پاکستانیوں کے ساتھ بات چیت کے تناظر میں ان کو بتانا کہ کسی نہ کسی طریقے سے ان کی حکومت آخر کار کشمیر کی جو ریاستی ساخت ہے اسے بحال کر دے گی۔

مودی کا یہ کہنا کہ سٹیٹ ہوڈ بحال کر دی جائے گی لیکن ایک مخصوص وقت پر اس کا مقصد بہت واضح ہے۔ اس کے پیچھے سوچ یہ ہے کہ جب حدبندی کر دی جائے گی، مسلمانوں کو کشمیر میں اقلیت بنا دیا جائے گا، جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جیت کا انتظام ہو  جائے گا اس کے بعد خصوصی حیثیت کے سوال کو اٹھایا جائے گا۔

دوسری جانب اگر سپریم کورٹ بھی سٹیٹ ہوڈ پر سماعت نہیں کرے گی تو مودی حکومت کا جو ارادہ، منصوبہ اور فیصلہ ہے وہ اٹل ہے۔ اس میں کسی تبدیلی کے امکانات نہیں ہیں اور تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب کشمیریوں کو سیاسی طور پر اقلیت بنا دیا جائے گا۔

یہ وہ صورت حال ہے جس کا پاکستان کو سامنا ہے۔ پاکستان کے لیے اصل دباؤ کشمیریوں کی توقعات کا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک پریس کانفرنس میں دہلی کے اجلاس کو ایک ناٹک قرار دیا۔ اجلاس سے کوئی ٹھوس بات نہیں نکلی پھر بھی انہوں نے کہا کہ کشیمر کی ریاستی حیثیت کو 5 اگست 2019 کی جگہ پر واپس لے کر آئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ پاکستان کا بس اس طرح کے بیانات  دے دینا اور کہہ دینا کہ وہ نہیں مانتے یہ کافی نہیں ہے۔ دیکھنا پاکستان نے یہ ہے کہ عملی طور پہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔ 5 اگست 2019 کے بعد تو اگر عملا دیکھا جائے تو بھارتی حکومت نے بہت کچھ کر دیا ہے یعنی وہاں ڈیموگرافک تبدیلیاں کر دی ہیں اور اب حد بندی کی بات کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر حالات یہ ہی رہے تو بھارت حد بندی بھی کر لے گا۔ وہ کلونیزم، نو آبادیات کی عمارت کے منصوبہ کو اینٹ پر اینٹ رکھ کر بڑے پختہ طریقے سے آگے بڑھاتا جا رہا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کیا کر رہا ہے؟ پاکستان کو حد بندی، کشمیریوں اس اس ملاقات اور جمہوریت کی بات ہے اس کی دنیا کے سامنے اصلیت کو اس طریقے سے جیسے کہ 5 اگست 2019 کے بعد کیا تھا اجاگر کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس میں قیادت کی تھی اور ایک سخت اور حقیقت پسندانہ موقف اپنایا تھا کہ یہ بھارت فسطایت پھیلا رہا ہے جسے دینا کو روکنا پڑے گا۔

باتیں تو تمام وہی ہو رہی ہیں۔ اب جو فرق ہے وہ یہ ہے کہ اس فسطایت میں کچھ مٹھاس ڈال کر یعنی کہ نام نہاد  جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر، حد بندی کی بات کر کے اور سٹیٹ ہوڈ کو حد بندی کے ساتھ نتھی کر کے جو کشمیریوں کو زہر کا پیالا پلانے کی کوشش کر رہا ہے۔

پاکستان نے جو بین الاقوامی سطح پر خاص کر پچھلے چھ ماہ میں تقریبا ایک چپ سی اپنائی ہوئی ہے اس پالیسی اور اپنے موقف پر نظرثانی کرنی پڑے گی۔ اگر پاکستان کا خیال ہے کہ جو بیک چینل چل رہا ہے اور مودی جو اقدامات اٹھا رہے ہیں یہ بیک چینل میں کوئی کیے گے وعدے ہیں جن کو مودی پورا کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں تو پاکستان اس صورت حال کو غلط سمجھ رہا ہے۔ اس طریقے سے سمجھ رہا ہے کہ نہ تاریخ سے، نہ ہی حقائق سے اور نہ ہی موجودہ صورت حال سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ اس وقت کشمیریوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ پاکستان نے اپنے آپ پر تقریبا ایک چپ کیوں طاری کی ہوئی ہے۔

پاکستان کو فوری طور پر ایسے اقدامات اٹھانے پڑیں گے جو اگست 2019 کو اٹھائے تھے تاکہ یہ بھارت کا حدبندی اور الیکشن کا فراڈ ہے اس کو دنیا کے سامنے بےنقاب کیا جائے۔ یہ وقت ہے بھارت کو بیک فٹ پر ڈالے کا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ