کالعدم تنظیم لشکراسلام کے سخت مخالف پیر محمد سید حیدری اچانک ضلع خیبر پہنچ گئے۔
پیر محمد سید حیدری معروف پیر سیف الرحمان کے فرزند ہیں جنہیں 2007 میں حکومت نے بدامنی پھیلانے کی بنیاد پر علاقے سے بے دخل کردیا تھا۔
پیر سیف الرحمن کے حامیوں اور لشکر اسلام کے درمیان 2006 اور 2007 میں مسلسل شدید جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور ساتھ ہی دونوں جانب سے ایک دوسرے کے ساتھیوں کو پشاور سمیت مختلف علاقوں میں ٹارکٹ کلینگ کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجہ میں مقامی انتظامیہ کے اعداد و شمار کے مطابق 150 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔
پیر محمد سید حیدری کے باڑہ میں چُپکے سے اچانک نمودار ہونے پر اگر ایک طرف علاقے میں سخت خوف کی لہر دوڑ گئی تو دوسری طرف نہ صرف ان کےمریدوں بلکہ قبائلی عمائدین نے بھی انتہائی گرم جوشی کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔
پیر سیف الرحمان کا تعلق افغانستان سے تھا جو اسی کی دہائی میں افغانستان سے پاکستان آئے تھے۔ پہلے پشاور اور بعد میں باڑہ کے علاقے منڈی کس میں آباد ہوگئے۔
ابتداء میں انہوں نے ایک چھوٹی سی مسجد میں امامت شروع کی اور بعد میں آہستہ آہستہ پورے علاقے میں ایک مذہبی پیر کے نام سے مشہور ہوگئے۔
مقامی لوگ ان کے مرید بننا شروع ہوگئے۔ پہلے پہلے مریدوں کی تعداد کم تھی مگر بعد میں یہ سینکڑوں تک پہنچ گئی۔ مقامی لوگوں میں شامل مریدوں نے پانچ جرب زمین ان کے نام کردی۔ آہستہ آہستہ جب ان کے پاس چندے کے پیسے بھی آنے لگے تو انہوں مزید 30 جرب زمین خرید لی اس وقت 35 جرب یعنی 140 کنال زمین ان کی ملکیت میں شامل ہے۔
پیر محمد سید حیدری کے والد پیر سیف الرحمان باڑہ منڈی کس میں ایک روحانی پیشوا کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کے وفات کے بعد ان کے صاحب زادے محمد سید حیدری گدی نشین کے طور پر سامنے آ گئے اور وہ باڑہ میں حالت خراب ہونے کے بعد لاہور کے علاقے جلو پیر میں آباد ہوچکے ہیں جہاں باڑہ سے تعلق رکھنے والے مرید ان کے پاس جاتے رہتے ہیں۔
چار عشروں سے ان کا ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں دربار عالیہ کے نام سے ایک وسیعے رقبے پر مکان موجود ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق پیر محمد سید 2007 میں حالات خراب ہونے کے بعد جب علاقہ چھوڑ کر گئے تھے تب سے وہ یہاں نہیں آئے تھے اور اب 13 سال بعد ان کا یہ پہلا دورہ ہے۔ کیوں کہ اب انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ باڑہ میں امن قائم ہوچکا ہے۔
پیر محمد سید حیدری کے رفقائے کار اور علاقائی مریدوں نے ان کی آمد کو خوش آئند قرار دیا ہے جبکہ عام شہریوں نے ان کی آمد کو علاقے میں ایک بار پھر امن امان خراب کرنے سے تعبیر کیا ہے۔
پیر حیدری نے اپنے مریدوں کے ہمراہ مسجد دربار عالیہ اور ان کی زرعی زمین کا بھی دورہ کیا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اپنے تباہ شدہ دربار عالیہ کو دیکھ کر وہ آبدیدہ ہو گئے۔
مقامی لوگوں کے مطابق ان کی زمین پر بوئی گئی گندم کی فصل سے حاصل شدہ آمدن کے پیسے مریدوں نے ان کو پیش کیے جو انہوں نے وصول کرکے جیب میں ڈال لیے۔
انتظامیہ کے مطابق پیر سیف الرحمان نے جب سے علاقہ چھوڑا تب سے ان کے دربار اور مکان کو اس وقت لشکر اسلام کے امیر مفتی شاکر کے رضاکاروں نے کئی بار نشانہ بنا کر شدید نقصان پہنچایا تھا۔ بعد میں حکومت نے اس اراضی کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
حکومت نے اس وقت اعلان کیا تھا کہ اس زمین پر ایک تعلیمی ادارہ بنایا جائے گا مگر حکومت کا اعلان صرف اعلان تک محدود رہا اور اب تک وہاں کوئی ادارہ نہیں بن سکا۔
اسسٹنٹ کمشنر باڑہ محمد کاشف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے صوبائی حکومت کو رپورٹ بھیجی ہے لیکن ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ ان کو یہاں دوبارہ آنے دیں گے یا نہیں۔ البتہ ان کا موجودہ دورہ عارضی بتایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ باڑہ میں امن قائم ہو چکا ہے اور کسی بھی صورت میں باڑہ کے امن امان کو خراب کرنے نہیں دیا جائے گا۔
اہلکار کے مطابق پہلے بھی پیر سیف الرحمن اور لشکر اسلام کے درمیان جھڑپوں میں قیمتی جانیں ضائع ہوچکی تھیں۔ امید ہے کہ آئندہ ایسے حالات پیدا نہیں ہوں گے۔
مقامی صحافی محمد فاروق آفریدی نے کہا کہ وہ صرف ایک دن کے لیے آئے تھے۔ ان کا دربار جھڑپوں کے دوران تباہ ہوچکا ہے۔ دربار کو دوبارہ تعمیر کرنے بعد وہ مستقل طور پر یہاں آباد ہوں گے۔
مقامی لوگوں کے مطابق پیر محمد سید حیدری یہاں دوبارہ آباد ہونا چاہتے ہیں۔ حیدری کے خیال میں باڑہ کے حالات دوبارہ خراب نہیں ہوں گے۔
ضلع خیبر میں پیر محمد سید حیدری کی آمد کے بعد علاقے میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور چھوٹے بڑے اس بحث میں پڑ گئے ہیں کہ اچانک یہ کیسے نمودار ہو گئے۔ حکومت نے تو اعلان کیا تھا کہ مذکورہ زمین پر تعلیمی ادارہ بنایا جائے گا، مگر یہ تو دوبارہ وہی پیر سامنے آگئے۔ پیر کے مخالفین نے پیر کی آمد کو ایک سازش قرار دیا ہےاور کہتے ہیں کہ باڑہ میں اب امن آچکا تھا اور دوبارہ امن امان خراب کرنے کے لئے پیر کو لایا گیا ہے۔
مقامی لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پیر محمد سید حیدری کو فوری طور پر علاقے سے بےدخل کرکے ان کے آنے پر پابندی لگا دی جائے۔
بعض حلقوں نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر حکومت نے ان پر پابندی نہیں لگائی تو وہ خود مزاحمت کریں گے۔ دوسری جانب پیر کے حامیوں نے بھی پیر کی آمد کو خوش آئند قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پیر محمد سید حیدری کی آمد امن کی علامت ہے، ان کو یہاں آباد ہونا چاہیے کیوں کہ وہ ہزاروں لوگوں کے روحانی پیشواء ہیں۔
واضح رہے کہ تمام قبائلی اضلاع میں باڑہ وہ واحد علاقہ ہے جو نہ صرف طالبان شدت پسندوں کی موجودگی کی وجہ سے بُری طرع متاثر ہوا ہے بلکہ کالعدم مذہبی تنظمیوں کے درمیان سالوں سے جاری لڑائی اور جھگڑوں نے اسے خون آلود کر دیا تھا۔
مذہبی تنظمیوں کی لڑائی کی وجہ سے اب بھی درجنوں خاندان ایک دوسرے کے دُشمن بن گئے ہیں جس سے آنے والی نسلیں بھی محفوظ نہیں دکھائی دیتیں۔