قومی سلامتی پر اہم بریفینگ مگر وزیر اعظم غیر حاضر

اجلاس کی صدارت قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے کی جب کہ اس میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اراکین کے علاوہ دوسرے پارلیمینٹیرینز، چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی، وفاقی وزرا سمیت اعلی حکام موجود تھے۔

پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اس اہم اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان شریک نہیں ہوئے (اے ایف پی)

پاکستان کی عسکری قیادت نے اراکین پارلیمان (قومی اسمبلی اور سینیٹ) کو ملک کی اندرونی، خطے اور ہمسایہ ممالک خصوصا افغانستان کی صورت حال اور پڑوسیوں کے علاوہ امریکہ سے تعلقات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔

جمعرات کی شام وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاوس کے ایوان میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا ان کیمرہ اجلاس ہوا، جس میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلیجینس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے شرکا کو تفصیلی بریفنگ دی۔

اجلاس میں شریک ہونے والے ایک رکن پارلیمنٹ کے مطابق فوجی قیادت نے شرکا کو قومی سلامتی کے تقریبا ہر مسئلے پر بریفنگ دی۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر  انڈپیندنٹ اردو سے بات کرنے والے رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ’انہوں نے افغانستان، چین، بھارت، امریکہ، حتیٰ کہ پوری دنیا سے متعلق پاکستان کی پوزیشن اور پالیسی کو واضح کرنے کی کوشش کی، اور پاکستان کو درپیش مسائل کا بھی ذکر کیا۔‘

اجلاس کی صدارت قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے کی۔ جب کہ اس میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اراکین کے علاوہ دوسرے پارلیمینٹیرینز، چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی، وفاقی وزرا ، چاروں وزرا اعلی، مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور سینئیر فوجی افسران بھی موجود تھے۔

اجلاس میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے 29 اراکین اور 16 دیگر پارلیمینٹیرینز کے علاوہ پارلیمانی لیڈرز کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے نامزد اراکین کو مدعو کیا گیا تھا۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے اس بریفنگ میں شرکت نہیں کی۔

افغانستان:

بریفنگ میں موجود شرکا کا انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بریفنگ کا بڑا حصہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے کنڈکٹ کیا جس میں ان کی افغانستان سے متعلق گفتگو سب سے اہم، جامع اور تفصیلی تھی۔

آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے افغانستان سے متعلق بریفنگ میں شرکا کو پڑوسی ملک سے امریکی فوجوں کے انخلا کے تناظر میں وہاں کے حالات سے آگاہ کیا۔ اس کے علاوہ اس صورت حال سے پاکستان کو درپیش خطرات، مواقع اور پالیسی آپشنز سے آگاہ کیا۔

بریفنگ کے شرکا کے مطابق انہوں نے افغانستان میں افغان طالبان کی حالیہ کارروائیوں اور ان کے امریکی فوجوں کے جانے کے بعد افغانستان اور پڑوسی ممالک خصوصا پاکستان پر ممکنہ اثرات پر بھی روشنی ڈالی۔

اجلاس میں شریک ایک رکن پارلیمنٹ نے بتایا کہ بریفنگ میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد مہاجرین کی ممکنہ طور پر پاکستان آمد کے امکانات پر بھی بحث ہوئی۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے وقفے کے دوران بریفنگ کے حوالے سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے اس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’یہ بہت تفصیلی اور اچھی بریفنگ تھی۔‘

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بتایا کہ پاکستان افغانستان میں ایک عوامی نمائندہ حکومت کی خواہش رکھتا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی اور اسلام آباد امید رکھتا ہے کسی دوسرے ملک کی زمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ 

سینئیر صحافی ایم ضیا الدین نے اس اجلاس کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پاکستان کو ایک قوم کی حیثیت سے بہت خطرہ ہے، اور ایسی صورت حال میں یہ بریفنگ بہت اہم ہے۔‘ 

ان کے خیال میں اگر طالبان امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان پر قبضہ کر لیتے ہیں تو وہ اپنے اقتدار کو پھیلانے کی کوشش کر سکتے ہیں اور اس سلسلے میں پہلا تجربہ پاکستان پر کر سکتے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بہرحال سیاسی اور پارلیمانی حمایت کی ضرورت ہو گی۔‘ 

ایم ضیا الدین کا کہنا تھا: ’اگر اسٹیبلشمنٹ پارلیمینٹیرینز کو سب کچھ کھل کر اور صحیح صورت حال سے آگاہ کرتی ہے تو یہ بریفنگز بہت کار آمد ثابت ہوں گی۔‘

وزیر اعظم نہ دارد

پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اس اہم اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان شریک نہیں ہوئے، جسے مختلف حلقوں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ 

دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو اس اجلاس میں ضرور شرکت کرنا چاہیے تھی۔ ’انہوں نے اس سے دور رہ کر میرے خیال میں غلطی کی ہے۔ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘ 

انہوں نے مزید کہا کہ اجلاس میں بہت اہم ایشوز پر گفتگو ہوئی اور ایسے سوالات بھی ضرور اٹھے ہوں گے جن کا جواب فوجی قیادت نے دینا مناسب نہیں سمجھا ہو گا۔ ’ایسے میں وزیر اعظم وہاں ہوتے تو وہ ایسے سوالات کے جواب دے سکتے تھے۔‘

پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون ملیکہ بخاری کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اہم مسائل پر ایک روز قبل ہی قومی اسمبلی میں اپنی حکومت کا موقف بیان کر دیا تھا۔

دیگر اہم معاملات: 

اجلاس میں افغانستان کے علاوہ بھی دوسرے کئی اہم معاملات پر بھی گفتگو کی گئی۔ جن میں امریکہ، اور چین سے تعلقات، کشمیر اور بھارت سر فہرست تھے۔ 

صحافی اور اینکر پرسن صابر شاکر کے مطابق اجلاس میں اسرائیل سے حالیہ تعلقات قائم کرنے کی رپورٹس بھی زیر بحث آئیں۔ عسکری قیادت نے شرکا کو بتایا کہ تل ابیب سے متعلق اسلام آباد کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ 

صابر شاکر کا کہنا تھا کہ اجلاس میں کشمیر کی صورت حال اور ہندوستان سے متعلق بھی شرکا کو بریف کیا گیا۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی پارلیمینٹیرینز کے پوچھے گئے سوالات کے جواب دئیے۔ 

تجزیہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ’آج پوری فوجی قیادت پارلیمان کے سامنے تھی۔ اس سے دونوں اطراف کا اعتماد بڑھے گا اور ملک کی سیاسی لیڈرشپ قومی سلامتی کے امور کو اپنائے گی۔‘ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت اچھی روایت ڈالی گئی، جو اشتراک پر مبنی خارجہ پالیسی کے لیے بہت ضروری ہے، اور اس سے ملک میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہوں گے۔ 

اجلاس ان کیمرہ:

اجلاس کی کاروائی کو سختی سے خفیہ (ان کیمرہ) رکھا گیا۔ تاہم ساری کاروائی کی ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی۔ جو اجلاس کے ختم ہونے پر سپیکر قومی اسمبلی کی موجودگی میں سیل کر دی گئی۔ 

قومی اسمبلی کے ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ ریکارڈنگ قومی اسمبلی میں محفوظ رکھی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے باعث قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکریٹیریٹ کے ملازمین کو چھٹی دے دی گئی جب کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بھی داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

ترجمان قومی اسمبلی نے میڈیا کو بتایا کہ ’پارلیمنٹ کے عملے کو چھٹی دے دی گئی اور پارلیمنٹ بند ہے، ایسے میں میڈیا والے آکر کیا کریں گے۔‘

 اجلاس شروع ہونے سے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تھے۔ 

اجلاس کی صدارت کمیٹی کے چیئرمین سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کر رہے ہیں۔ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین، وزیر ریلوے اعظم خان سواتی، وزیر ہاؤسنگ اینڈ ورکس چوہدری طارق بشیر چیمہ، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد، سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر سینیٹر یوسف رضا گیلانی، ارکان قومی اسمبلی بلاول بھٹو زرداری، اسد محمود، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے علاوہ خالد حسین مگسی، سردار اختر مینگل، غوث بخش خان مہر، عامر حیدر اعظم خان، نوابزادہ شاہ ذین بگٹی، اراکین سینیٹ سینیٹر شیری رحمان، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، سینیٹر انوار الحق کاکڑ، سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری، سینیٹر فیصل سبزواری، سینیٹر محمد طاہر بزنجو، سینیٹر ہدایت اللہ خان، سینیٹر محمد شفیق ترین، سینیٹر کامل علی آغا، سینیٹر مشتاق احمد، سینیٹر سید مظفر حسین شاہ، سینیٹر محمد قاسم اور سینیٹر دلاور خان شریک تھے۔

اجلاس میں چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی محمد قاسم خان سوری، وزیر دفاع پرویز خٹک، وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات اسد عمر،وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری، وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ملک محمد عامر ڈوگر، اراکین قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی، خواجہ محمد آصف، رانا تنویر حسین، احسن اقبال چوہدری، راجہ پرویز اشرف اور حنا ربانی کھر کو خصوصی طور پر دعوت دی گئی تھی۔

اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرا اعلیٰ بھی شریک تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان