گلگت: توہین مذہب مقدمہ، خاتون ٹیچر بری، ’وہ اب آزاد شہری ہے‘

سکول ٹیچر پر 2019 میں توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا اور  بعد میں مذہبی تنظیموں کی جانب سے اس کی گرفتاری اور سکول سے نکالنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔

(فائل فوٹو: اے ایف پی)

گلگت بلتستان کی وادی غذر میں توہین مذہب کے الزام میں تین سال سے زیر حراست  ایک نجی سکول کی خاتون ٹیچر کو غذر کی مقامی عدالت نے عدم ثبوتوں کے بنا پر بری کر دیا۔

ان سکول ٹیچر پر 2019 میں توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا اور بعد میں مذہبی تنظیموں کی جانب سے ان کی گرفتاری اور سکول سے نکالنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ ان خاتون کو سکول کی جانب سے بعد میں نکال دیا گیا تھا  اور ان پر غذر وادی کے گاہکوچ پولیس سٹیشن میں  توہین مذہب کا مقدمہ  بھی درج کیا  گیا تھا۔

تین سال عدالت میں مقدمہ چلنے کے بعد عدالت نے یکم جولائی کو مختصر فیصلے میں لکھا ہے کہ خاتون کو الزامات سے بری کیا جاتا ہے اور پولیس کو اگر یہ خاتون کسی دوسرے مقدمے میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں بری کر دیا جائے۔ عدالت کی جانب سے تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

اسی مقدمے کے حوالے سے چند ہفتے پہلے غذر وادی میں مذہبی تنظیموں کی جانب سے تقریباً چار دن کا دھرنا بھی دیا گیا تھا۔ دھرنے کے منتظمین کا کہنا تھا کہ نجی سکول کی خاتون ٹیچر پر توہین مذہب کے مقدمے میں جو خاتون بطور گواہ پیش ہوئیں وہ گواہی سے منحرف ہوگئیں اور یہ بھی مبینہ طور پر اسی سکول کی استاد تھیں۔

مظاہرین نے غذر میں مرکزی شاہراہ کو بھی ٹریفک کے لیے بند کیا تھا اور گواہی سے مبینہ انکار کرنے والی خاتون کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ انتظامیہ نے بعد میں مظاہرین کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ گواہی دینے والی خاتون کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا جس کے بعد مظاہرین نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

گلگت بلتستان پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی ) ڈاکٹر میاں سعید نے انڈپینڈنٹ اردو  کو بتایا کہ ’عدالت سے بری ہونے کے بعد خاتون کو عدالتی حکم پر رہا کیا گیا ہے اور اب وہ ایک آزاد شہری کی حیثیت سے زندگی گزار سکتی ہیں، پولیس نے اپنی طرف سے جو ممکنہ سکیورٹی تھی وہ فراہم کی ہے۔‘

ڈاکٹر سعید نے بتایا کہ ’خاتون نے خود کسی قسم کی سکیورٹی کا مطالبہ نہیں کیا نہ ہی ان کی رہائی پر ابھی تک کسی قسم کا ردعمل سامنے آیا ہے اور کچھ ہفتے پہلے جو دھرنا دیا گیا تھا وہ اصل میں اس مقدمے میں مبینہ طور پر گواہی دینے والی سکول کی ایک دوسری خاتون کے حوالے سے تھا اور مظاہرین سکول انتظامیہ سے ان خاتون ٹیچر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔‘

ڈی آئی جی نے بتایا کہ ’مذہبی تنظیموں کی جانب سے عدالتی فیصلے کو تسلیم کیا گیا ہے اور اگر کوئی فیصلے کے خلاف اپیل کرنا چاہتا ہے تو وہ اپیل کر سکتا ہے، یہ ہر کسی کا قانونی حق ہے۔‘

توہین مذہب کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟

پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات ثابت ہونے کی سزا پاکستان پینل کوڈ کے مطابق سزائے موت ہے تاہم قانون میں الزامات ثابت نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے متعلق کوئی شق نہیں ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل علی گوہر درانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ  کچھ عرصہ پہلے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس قسم کے ایک قانون کی تجویز دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر توہین مذہب کے الزامات کوئی درخواست گزار ثابت نہ کر سکے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔

سینیٹ کی کمیٹی کا موقف تھا کہ اس تجویز کو سامنے لانے کا مقصد یہ ہے کہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال روکا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم علی گوہر کے مطابق اس تجویز کی جمعیت علما اسلام کی جانب سے مخالفت کی گئی تھی، یہ تجویز سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے انسانی حقوق کی طرف سے سامنے آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی پر توہین مذہب کا الزام لگائے اور اس کو ثابت نہ کر سکے تو اسے وہی سزا ملے گی جو توہین مذہب کے مجرم کو ملتی ہے۔

موجودہ قانون میں پاکستان پینل کوڈ کے دفعہ 182 میں یہ صرف یہ لکھا گیا ہے کہ اگر کسی نے کسی بھی حوالے سے جھوٹا مقدمہ درج کیا تو اسے چھ ماہ قید کی سزا اور ایک ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا تاہم یہ شق خصوصی طور پر توہین مذہب کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ تمام مقدمات پر لاگو ہوتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین