امریکہ ایران کشیدگی: مشرق وسطیٰ پر جنگ کے بادل کیسے منڈلانے لگے؟

ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات کے بعد دونوں ملک بات چیت کریں گے یا جنگ؟

امریکی بحریہ کی جانب سے  8مئی کوریلیز کی گئی تصویر  میں امریکی جنگی بیڑا ابراہم لنکن اور یوایس این ایس جہاز آرکٹک سمند رمیں مشقیں کر رہے ہیں۔ تصویر: اے ایف پی /امریکی بحریہ

حالیہ دنوں میں امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اور دونوں طرف سے سخت بیانات سامنے آئے ہیں۔ امریکہ میں سیاسی رہنماؤں اور اس کے یورپی اتحادیوں نے جنگ کے خطرے کو ٹالنے کے لیے تحمل کی اپیل کی ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان تنازع میں اضافہ اس وقت ہوا جب امریکہ نے ایران یا ایرانی حمایت یافتہ جنگجوں سے خطرے کا دعویٰ کرتے ہوئے خلیج عرب میں اپنا بیڑا اور بمبار طیارے تعینا ت کردیے۔

اس پر تہران نے امریکہ پر کشیدگی بڑھانے کا الزام لگایا اور ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ نے خبردار کیا کہ ایران جنگ کے دھانے پر کھڑا ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے ایران سے جڑی عراقی ملیشیا فورسز سے ’ناگزیر‘ خطرے کے پیش نظرعراق میں اپنے سفارت خانے میں تعینات غیر ضروری عملے کو واپس بلا لیا ہے۔

دوسری جانب، ایران نے کہا کہ امریکہ کے ایٹمی معاہدے سے پیچھے ہٹنے کے باوجود وہ ’حد درجےتحمل‘ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ٹوکیو کے دورے پر آئے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے الزام لگایا کہ واشنگٹن کشیدگی بڑھا رہا ہے جو ’ناقابل قبول‘ ہے۔

جمعرات کو ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر کا بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے خبردار کیا کہ ایران کسی بھی مقابلے کے لیے تیار ہے۔

امریکی خدشات

دونوں ملکوں کے درمیان پچھلے کچھ ہفتوں سے کشیدگی بڑھنے سے مشرق وسطیٰ پر جنگ کے بادل گہرے ہوتے محسوس ہو رہے ہیں۔

واشنگٹن میں مبصرین کو شبہ ہے کہ اپریل میں دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے بعد پاسدران انقلاب امریکہ کے خلاف حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

امریکی اعلان کے بعد ایران نے تمام امریکی فوجیوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دے دیا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی فوجی ممکنہ ہدف ہو سکتے ہیں۔

ایران نے براہ راست عوامی سطح پر امریکہ کو دھمکیاں نہیں دیں لیکن واشنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ خفیہ معلومات کی بنیاد پر حرکت میں آیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ممکنہ خطرے کی توجیح پیش کرتے ہوئے خلیج عرب میں امریکی فوج بڑھانے کے احکامات جاری کیے، جس کے بعد 5 مئی کو ٹرمپ کے سخت گیر قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے بحری بیڑے یو ایس ایس ابراہم لنکن اور ایک بی 52 بمبار خلیج عرب میں تعینات کرنے کا اعلان کر دیا۔ کچھ دنوں بعد پنٹاگون نے ایک پیٹریٹ میزائل اور حملہ آور جہاز بھی تعینات کر دیا۔

بولٹن کے مطابق، بحری بیڑے کی تعیناتی ایران سے ملنے والے ’پریشان کن اشاروں‘ کی بنیاد پر کی گئی۔

رواں ہفتے بدھ کو امریکہ نے پہلی بار واضح طور پر کہا کہ اس کے عراق میں تعینات عملے کو تہران کی مبینہ پشت پناہی والے عراقی جنگجوؤں سے خطرہ ہے۔

13 مئی کو سعودی اور متحدہ عرب امارات کے حکام نے کہا تھا کہ خلیج عرب میں فجیرہ میں لنگر انداز تین آئل ٹینکروں کو مبینہ طور پر ایک ’سبوتاژ آپریشن‘ میں نقصان پہنچایا گیا۔ تاہم، آزاد ذرائع سے تصدیق نہ ہو سکی کہ ان جہازوں کو پہنچنے والے نقصان کے پیچھے کون تھا۔

’جنگ نہیں چاہتے‘

منگل کو ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اصرار کیا کہ یہ حالات صرف ملک کا عزم جانچنے کے لیے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، انہوں نے کہا: ’یہ کشیدگی فوجی نہیں کیونکہ کوئی جنگ نہیں ہوگی۔ نہ ہم، نہ وہ (امریکہ) جنگ چاہتے ہیں۔‘

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی منگل کو روس میں کہا تھا: ’ہم بنیادی طور پر ایران سے جنگ نہیں چاہتے۔‘

گذشتہ ہفتے، نیو یارک ٹائمز نے ایک خبر دی تھی کہ قائم مقام ڈیفنس سیکریڑی پیٹرک شناہان نے وائٹ ہاوس میں ایرانی حملے کی صورت میں ایک لاکھ 20 ہزار امریکی فوجیوں کو خطے میں بھیجنے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔

ایران پر حملے کے لیے یہ ناکافی ہے، البتہ اس قوت کے ذریعے سرحد پار سے حملہ کیا جا سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اس خبر کی تردید کی اور وائٹ ہاوس میں رپورٹروں سے کہا: ’کیا میں ایسا کروں گا؟ قطعی طور پر، لیکن ہم نے ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔ امید ہے کہ ہم ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنائیں گے۔‘

اس ساری صورتحال میں امریکہ کے یورپی اتحادیوں نے فاصلہ رکھتے ہوئے تحمل کی اپیل کی ہے۔

یورپی اتحادیوں کو خطرہ ہے کہ مزید دباؤ ڈالنے پر تہران عالمی ایٹمی معاہدے سے باہر آ سکتا ہے۔ خیال رہے کہ واشنگٹن ایک سال پہلے ہی اس معاہدے سے پیچھے ہٹ چکا ہے۔

عراق اور شام میں داعش کے خلاف عالمی اتحاد میں شامل برطانیہ، نیدر لینڈز اور جرمنی کی فوج کا خیال ہے کہ فی الحال ایران سے کوئی خطرہ نہیں۔

جرمنی اور نیدر لینڈز نے کشیدہ صورتحال کے پیش نظر بدھ کو عراق میں فوجیوں کی تربیت معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اسی طرح سپین نے امریکی بیڑے کے ساتھ موجود اپنی ایک فریگیٹ کو واپس بلاتے ہوئے واضح کیا کہ وہ ایران کے خلاف ممکنہ جارحیت کاحصہ نہیں بننا چاہتا۔

’مذاکرات جلد ہوں گے‘

صدر ٹرمپ نے ایران کے حوالے سے امریکی پالیسی پر وائٹ ہاؤس میں اختلافات کی تردید کرتے ہوئے پیش گوئی کی کہ ایران ’جلد‘ مذاکرات کی خواہش ظاہر کرے گا۔

ٹرمپ نے بدھ کو ایک ٹویٹ میں لکھا کہ خبروں میں کہا جا رہا ہے کہ ان کی مشرق وسطیٰ پالیسی کے بارے میں وائٹ ہاوس میں اندرونی اختلافات ہیں۔ انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا یہ بہت آسان عمل ہے، مختلف آرا سامنے آتی ہیں، لیکن حتمی اور آخری فیصلہ وہ ہی کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے یقین ہے کہ ایران جلد مذاکرات چاہے گا۔‘

 

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا