پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں’جہادی تنظیموں‘ کے دفاتر سیل

32 سال کی مسلح تحریک کے دوران یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے ان تنظیموں کو اخراجات کی مد میں ملنے والی رقم بھی روک دی۔

پاکستانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ وادی کشمیرمیں برسرِ پیکار عسکری تنظیموں کے اتحاد ’متحدہ جہاد کونسل‘ میں شامل تمام 12 تنظیموں کے دفاتر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں سربمہر کر دیے گئے ہیں۔

پلوامہ حملے کے تناظر میں بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد 32 سال کی مسلح تحریک کے دوران یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے دفتری اخراجات کی مد میں دی جانے والی رقم مکمل طور پر روکتے ہوئے ان تنظیموں کے دفاتر بند کر دیے ہیں۔

اسلام آباد میں سرکاری ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تمام دفاتر سکیورٹی اداروں نے سیل کیے جبکہ امداد حکومتِ پاکستان نے بند کی۔

ذرائع کے مطابق، ان تنظیموں کی تمام ’سہولیات‘ دنیا میں دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے لیے رقوم کی ترسیل بند کرنے کے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی وجہ سے بند کی گئی ہیں۔  

متحدہ جہاد کونسل کے ایک اہم عہدے دار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے مجسٹریٹ کی موجودگی میں ان کے دفاتر سربمہر کیے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر مقام مظفرآباد شہر اور گردونواح میں موجود ان دفاتر پر تالے پڑے ہیں اور مقامی لوگوں نے بتایا کہ پہلے یہاں عسکریت پسند دکھائی دیتے تھے لیکن دفاتر بند ہونے کے بعد اب یہاں کوئی نظر نہیں آتا۔

مظفرآباد میں ایک عسکری کمانڈر سے ان کے گھر پر ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ دفاتر بند ہونے بعد شادی شدہ لوگ اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں جبکہ غیر شادی شدہ اپنے طور پر یا پھراپنے دوستوں کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں۔  

ایک اورعہدے دار نے ملاقات پر بتایا کہ ان کے دفاتر کی نگرانی کی جا رہی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی دفتر دوبارہ نہ کھولا جائے۔ 

ایک اور عہدے دار نے بتایا کہ ہر طرح کے اجتماع پر بھی پابندی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہ مستقبل کے بارے میں کوئی صلاح مشورہ نہ کرسکیں۔ ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ تر وقت گھروں میں ہی رہ رہے ہیں۔  

ان عہدے داروں نے آگاہ کیا کہ حکومت پاکستان نے رواں سال مارچ سے متحدہ جہاد کونسل میں شامل تمام تنظیموں کے انتظامی اخراجات مکمل طور بند کردیے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ رقم دفتری اخراجات جن میں مکان کا کرایہ، بجلی، گیس اور ٹیلیفون بلوں کے علاوہ گاڑیوں کی مرمت، ایندھن اور دفتر میں موجود عسکریت پسندوں کے کھانے پینے کے لیے فراہم کی جاتی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کے اس فیصلے کی وجہ سے انھیں شدید مشکلات درپیش ہیں۔  

متحدہ جہاد کونسل میں شامل ایک اہم تنظیم کے رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ 32 سال کی مسلح تحریک کے دوران پہلی مرتبہ ہے کہ حکومت پاکستان نے اخراجات کی مد میں دی جانے والی رقم مکمل طور پر روک دی ہے اور دفاتر بند کردیے ہیں۔ 

حکومتی عہدیدار اس صورت حال پر خاموش ہیں البتہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین خان محسود نے چند ہفتے قبل ایک اخباری کانفرنس میں کہا تھا کہ جن کالعدم تنظمیوں کے خلاف پاکستان میں کارروائی ہو رہی ہے، اگر وہ اس خطے میں موجود ہیں تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب کشمیری عسکری تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کے ان تازہ  اقدامات سے یہ اشارے  ملتے ہیں کہ اب وہ کسی بھی صورت کشمیر کی مسلح تحریک کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ حکومت پاکستان کا مقصد ہوسکتا ہی کہ وہ ہندوستان کی تشویش کم کرے تاکہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کم ہو اور بات چیت شروع ہو سکے۔

کشمیری عسکریت پسند تنظیموں کا کہنا ہے کہ سنہ 2002 میں پاکستان کے اُس وقت کے سربراہ  صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں برسرِپیکار پاکستانی اور کشمیری عسکری تنظیموں پر کئی طرح کی  پابندیاں عائد کی تھیں جن میں وادی میں سرگرمیوں کے لیے پیسے بند کرنا اور لائن آف کنٹرول کے آر پار جانے پر پابندی لگانا شامل تھیں۔ مشرف کے دورِ حکومت میں ان تنظیموں کی مالی مدد بند کردی گئی تھی جو کبھی بھی بحال نہیں ہوئی۔

 سنہ 2012 کے اوائل میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان دفاتر پر اٹھنے والے اخراجات کے لیے دی جانے والی رقم میں 50 فیصد کمی کر دی تھی۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت نے کشمیری عسکریت پسندوں کی بحالی کے لیے دی جانے والی امداد بھی روک دی تھی۔

اس مرتبہ دفاتر کے علاوہ انتظامی اخراجات بھی مکمل طور پر بند کردیے گئے ہیں اور یہ مرحلہ وار ہوا ہے۔

اس سلسلے مین انسپکٹر جنرل پولیس سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

اس پالیسی کا آغاز پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ہوا تھا، جس کے تحت کشمیری عسکریت پسندوں کو شادی کے لیے 50 ہزار دوپے دیے جاتے تھے اور اتنی ہی رقم کاروبار شروع کرنے کے لیے بھی دی جاتی تھی۔

اس پالیسی کا مقصد بظاہر کشمیری عسکریت پسندوں کو پُر امن زندگی شروع کرنے کے لیے موقع فراہم کرنا تھا، تاہم عسکری تنظیموں کے ذرائع سے گفتگو کے بعد یہ معلوم ہوا کہ عسکریت پسندوں کو ماہانہ جو 10 ہزار روپے دیے جاتے ہیں، وہ بدستور دیے جا رہے تھے۔

متحدہ جہاد کونسل 12 کشمیری تنظیموں پر مشتمل اتحاد ہے اور اس میں کوئی پاکستانی تنظیم شامل نہیں ہے۔ ان میں حزب المجاہدین ہی واحد ایسی تنظیم ہے جو اب بھی ایک موثر تنظیم سمجھی جاتی ہے۔

کشمیری تنظیمیں یہ اعتراف کرتی ہیں کہ پاکستان کی حکومتوں کے ان اقدامات کی وجہ سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکری تحریک پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔

بھارت پاکستان پر الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں شورش کو ہوا دے رہا ہے لیکن پاکستان نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے اور اس کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ بھارت سے آزادی کے خواہاں لوگوں کی صرف اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد کرتا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان