لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کون ہیں؟

چیف جسٹس محمد امیر بھٹی سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دینے والے بینچ میں بھی شامل تھے۔

چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا سے ہے (پنجاب گورنر ہاؤس)

لاہور ہائی کورٹ کے نئے تعینات ہونے والے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے، جس کے فوراً بعد ہی وہ ہائی کورٹ پہنچے چارج سنبھالا اور رجسٹرار سمیت جوڈیشل عملے کے کئی افسران تبدیل کر دیے۔

وہ حلف اٹھانے سے ایک دن پہلے دل کی تکلیف کے باعث پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ایک رات زیر علاج رہے۔

ان سے عہدے کا حلف گورنر پنجاب چودھری سرور نے منگل کے روز لیا۔

چیف جسٹس محمد امیر بھٹی سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دینے والے بینچ میں بھی شامل تھے۔

جبکہ عہدے کا حلف اٹھانے سے چند دن قبل وزیر اعظم کے مشیر کی ان سے لاہور ہائی کورٹ میں ان کے چیمبر میں ملاقات پر سوشل میڈیا صارفین نے سوالات بھی اٹھائے۔

نئے چیف جسٹس کا تعارف

چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا سے ہے۔ وہ آٹھ مارچ 1962 کو پیدا ہوئے۔

قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ شعبہ وکالت سے وابستہ ہوگئے اور ملتان منتقل ہوگئے۔ وہاں انہوں نے وکالت کے ساتھ بار ایسوسی ایشن کی سیاست میں بھی متحرک کردار ادا کیا اور ہائی کورٹ بار ملتان کے جنرل سیکرٹری بھی منتخب ہوئے۔

اس کے بعد 12 مئی 2011 کوایڈہاک جج کے طور پرلاہور ہائی کورٹ کے جسٹس تعینات ہوگئے۔

چیف جسٹس محمد امیر بھٹی 62 سال کی عمر پوری ہونے پر سات مارچ 2024 میں لاہور ہائی کورٹ سے ریٹائرہو جائیں گے۔

سابق جسٹس ظفر اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کے حوالے سے بتایا کہ وہ ان کے ساتھ وکالت بھی کرتے رہے اور بار کی سیاست بھی کی، وہ ایک بار ہائی کورٹ بار ملتان  کے جنرل سیکرٹری بھی منتخب ہوئے۔

’ہم دونوں ہی 2011 میں ایڈہاک جج تعینات ہوئے تھے بعد میں وہ مستقل ہوگئے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ محمد امیر بھٹی نے بطور وکیل بھی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے خود کو ’بہترین‘ وکیل منوایا اور جب جج بن گئے تب بھی وہ ایک ’بااصول‘ اور ’غیر جانبدار‘ جج کے طور پر سامنے آئے۔

’ان کے تمام فیصلے آئین و قانون کے مطابق لکھے گئے، جو آج بھی موجود ہیں، انہوں نے کبھی کسی کا دباؤ لیے بغیر دلیری سے فیصلے کیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ظفر اللہ خان کے مطابق جب وہ پرنسپل سیٹ لاہور یا بینچز میں ڈی بی کے دوران ساتھ بیٹھتے تو انہوں نے کبھی کسی کو رعایت دینے سے متعلق بات نہیں کی اور ہمیشہ آئین و قانون کے مطابق سائلین کو انصاف کی فراہمی ممکن بنائی۔

انہوں نے کہا کہ ’چیف صاحب نے بے شک وکلا سیاست میں بھی حصہ لیا لیکن ان کا جھکاؤ یا حمایت کسی سیاسی جماعت یا اسٹیبلشمنٹ کے طرف نہیں رہا۔‘

چارج سنبھالتے ہی تبدیلیاں

اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی منگل کو چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ مشتاق اوجلہ کو تبدیل کر کے عرفان سعید کو رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ تعینات کیا۔

لاہور ہائی کورٹ، ڈی جی ڈائریکٹوریٹ ڈسٹرکٹ جوڈیشری کو تبدیل کر کے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ارشد حسین بھٹہ کو ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشری تعینات کر دیا۔

جبکہ تبدیل ہونے والے ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشری کو مزید تعیناتی کے لیے ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے پرنسپل سٹاف افسر کی نئی اسامی بھی معرض وجود میں آ گئی ہے۔ پرنسپل سٹاف آفیسر ٹو چیف جسٹس کی اسامی پر سیشن جج محمد یار ولانہ کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کرایا گیا، جو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی کی منظوری کے بعد ہوا۔

پرنسپل سٹاف آفیسر ٹو چیف جسٹس کو فوری طور پر نئی تعیناتی کا چارج سنبھالنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس سے قبل چیف جسٹس کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی سیٹ موجود نہیں تھی۔

کیا وہ ایسے جج ہیں جن کے فیصلے بولتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں سابق جج ظفر اللہ خان نے کہا کہ چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کو کبھی ایسے ریمارکس دیتے نہیں دیکھا جس سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو یا انہوں نے کبھی میڈیا پر خبریں چلانے کی خواہش ظاہر نہیں کی، نہ ہی وہ شہرت کا شوق رکھتے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پہلے بطور جج ہائی کورٹ ان کے فیصلے قانون بنے اب بھی آپ دیکھیں گے کہ وہ واقعی وہ جج ہیں جن کے فیصلے بولتے ہیں۔

ویسے تو کافی فیصلے انہوں نے ایسے دیے ہیں جو قانون اور تاریخ کا حصہ بنے۔ وہ جسٹس مظاہر علی نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی فل بینچ میں بھی شامل تھے۔

لاہور ہائی کورٹ کے اس بینچ نے 13 جنوری 2020 کو سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیرقانونی قرار دیا تھا جس کے بعد خصوصی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان