امریکہ بھیڑیوں کے خلاف جنگ کیوں شروع کرنے والا ہے؟

امریکی ریاست آئیڈہو اور مونٹانا میں صورتحال ان لوگوں کے حق میں دکھائی دیتی ہے جو بھیڑیوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

بھیڑیوں کے مستقبل کے حوالے سے ہونے والی یہ لڑائی کئی سالوں سے جاری ہے اور دنیا کے کئی حصوں میں تو اس جانور کا بے دریغ شکار کر کے معدومیت کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے ( اے ایف پی فائل فوٹو)

جب بات ہو جنگلی بھیڑیوں سے لاحق مسائل کی تو اس معاملے پر اتفاق رائے قائم کرنا مشکل ثابت ہوسکتا ہے، پوری دنیا خاص طور پر مغربی امریکہ کے عوام اس حوالے سے دو گروہوں میں تقسیم نظر آتے ہیں۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ خاص قسم کے سرمئی بھیڑیوں کی موجودگی کو سراہنا چاہیے اور ایسا صرف بھیڑیوں کے لیے نہیں بلکہ اس شکاری جانور کی موجودگی سے ممکنہ طور پر پورے ماحولیاتی نظام کو حاصل ہونے والے بے شمار فوائد کی وجہ سے کیا جانا چاہیے۔

دوسری جانب کچھ لوگ اس جانور کی موجودگی کو سراسر خطرہ، ’خشکی پر پیرانا مچھلی‘، کی طرح سمجھتے ہیں جو جنگل کے دیگر چھوٹے جانوروں اور مویشیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں لہٰذا ان کا بے رحمانہ شکار کیا جانا چاہیے۔

بھیڑیوں کے مستقبل کے حوالے سے ہونے والی یہ لڑائی کئی سالوں سے جاری ہے اور دنیا کے کئی حصوں میں تو اس جانور کا بے دریغ شکار کر کے معدومیت کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے جبکہ دیگر ممالک جیسے فرانس اور جرمنی میں کسانوں کی سخت مخالفت کے باوجود بھیڑیوں کے غول دوبارہ چھوڑے گئے ہیں۔

امریکی ریاست آئیڈہو اور مونٹانا میں صورتحال ان لوگوں کے حق میں دکھائی دیتی ہے جو بھیڑیوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

دونوں ریاستوں میں نئے قوانین منظور کیے گئے ہیں جن کے تحت شکاریوں کے لیے ان جانوروں کا شکار یا جال میں پھنسانا آسان ہوجائے گا جن کی تعداد معدومیت کے خطرے سے بچانے کے لیے ایک صدی سے زیادہ عرصے تک کی جانے والی کوششوں کے بعد بڑھ چکی ہے اور انھیں خطرات سے دو چار جانوروں کی وفاقی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے۔

اپریل میں مونٹانا کی سینیٹ نے بل 314 منظور کیا جس کے تحت شکاریوں کو ریاست میں موجود بھیڑیوں کی کل تعداد کے 85 فیصد کو مارنے کی اجازت ہوگی۔

بل کے تحت جانوروں کو مختلف طریقوں سے مارا جا سکتا ہے جن میں مخصوص پنجروں کا استعمال اور رات کے اوقات میں شوٹنگ وغیرہ شامل ہیں۔

اسی طرح مئی میں آئیڈہو کی مقننہ نے سینیٹ بل 1211 منظور کیا جس کے تحت ریاست کو 90 فیصد بھیڑیوں کو مارنے کے لیے نجی کنٹریکٹرز کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت مل گئی۔

حکام کے مطابق ان دونوں ریاستوں اور وائیومنگ میں تقریباً تین ہزار بھیڑیے موجود ہیں جبکہ ریاست منی سوٹا، مشی گن، وسکونسن اور واشنگٹن میں بھی ان کی آبادی ہے۔

جنگلی حیات اور انسانوں کی آبادی کے درمیان صحت مند تعلق کے قیام کے لیے ملک گیر سطح پر کام کرنے والے گروپ Project Coyote میں سائنس دان کے حیثیت سے کام کرنے والی مشیل لیوٹ کہتی ہیں کہ نئے قوانین نے ان ریاستوں میں بھیڑیوں کے شکار میں اضافہ کر دیا ہے۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’پھندا لگایا جارہا ہے، فضا سے شوٹ کیا جا رہا ہے، بنیادی طور پر یہ مختلف صورتوں میں ریاستی سطح پر انعامات کی تقسیم کی جانب واپسی ہے، بھیڑیوں کو مارنے کے لیے کنٹریکٹ کلرز کو معاوضوں پر بھرتی کیا جارہا ہے۔‘

بھیڑیوں سے درپیش خطرات سے متعلق مشیل کہتی ہیں: ’خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ بھیڑیے انتہائی اہم شکاری ہیں جن کے ماحولیاتی نظام پر بے شمار فوائد ہیں۔ لہٰذا خطرہ صرف ناردرن راکیز اور گریٹ لیکس میں موجود بھیڑیوں کی آبادی کو نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کو ہے جو زمین پر شکاری جانوروں کی موجودگی سے مستفید ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ وائیومنگ کے یَلوسٹون نیشنل پارک اور دیگر مقامات پر کیے جانے والے متعدد مطالعوں میں وہ فوائد سامنے آئے ہیں جو بھیڑیوں کی موجودگی سے آس پاس رہنے والوں کو حاصل ہوتے ہیں۔

شکار بننے والے جانور ہرن اور بارہ سنگھا وغیرہ بھیڑیوں کا خوف محسوس کرتے ہیں اور کسی ایک مقام پر زیادہ نہیں چرتے۔

اس سے پودوں کو دوبارہ اگنے کا موقع ملتا ہے اور ان پودوں میں چوہوں جیسے جانوروں کی واپسی ہوتی ہے۔

سبزے کی بحالی سے دریاؤں کا بہاؤ بھی برقرار رہتا ہے اور یہ زمین کے کٹاؤ کو روکنے میں کردار ادا کرتا ہے۔

مشیل کے مطابق یہ بھیڑیوں کے خلاف کھلی جنگ ہے جس کے بہت زیادہ غیر معمولی اثرات ہیں۔

سٹیو ایلڈر امریکی ریاست آئیڈہو کے شہر بویز میں قائم شکار کے حامی گروپ ’وائلڈ لائف‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔

10 برس قبل جب انہوں نے بھیڑیوں کے شکار کے عوض انعامات کا انتظام کیا تو انھیں قتل کی بے شمار دھمکیاں ملیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عوام اور کارکنوں کو میڈیا نے برین واش کیا ہے۔

سٹیو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس بات کے بڑے پیمانے پر شواہد موجود ہیں کہ بھیڑیے نہ صرف حملہ کر کے مویشیوں کو ہلاک کرتے ہیں بلکہ وہ ایسا صرف خوراک کے لیے نہیں کرتے بلکہ ضرورت سے زیادہ جانوروں کو مار ڈالتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ آئیڈہو کے نئے قانون میں جتنے بھیڑیوں کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے وہ موجودہ مجموعی 1500 جانوروں میں صرف 150 بنتی ہے، یہ 2002 میں ریاست کے بھیڑیوں کے انتظام کے منصوبے میں طے کردہ تعداد سے 50 فیصد زیادہ ہے۔

سٹیو اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ بھیڑیوں کے ماحولیاتی نظام پر بے شمار فوائد ہیں اور کہتے ہیں کہ بھیڑیوں کا شکار عموماً سردیوں میں کیا جاتا ہے۔ انھیں امید ہے کہ 2021 میں شکاری متعدد جانوروں کا شکار کریں گے۔

’مجھے امید ہے زیادہ سے زیادہ بھیڑیوں کو مارا جائے گا، ہمیں زیادہ بارہ سنگھے، مویشی اور دیگر جانور ملیں گے، یہ وہ ہوگا جو ہم نے 25 برس قبل طے کیا تھا۔‘

امریکہ کی مغربی ریاستوں میں بھیڑیوں کی آزار رسانی کے محرکات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ اور کثیر الجہت مسئلہ ہے۔

کچھ کا خیال ہے کہ بعض زمین دار وفاقی حکومت کی موجودگی سے خوف زدہ یا ناراض ہوتے ہیں اگر ان کی اراضی پر ایسے جانور موجود ہوں جو معدومیت کے خطرے کی فہرست میں شامل ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ بھیڑیے سے درپیش خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔

ایسا نہیں کہ صرف مغربی امریکہ میں سرمئی بھیڑیوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ Gizmodo نے گذشتہ برس نومبر میں رپورٹ شائع کی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے وسکونسن، منی سوٹا اور مشی گن میں بھیڑیوں کو معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست سے نکال دیا ہے۔

اس کا ایک نتیجہ رواں برس فروری میں وسکونسن میں سامنے آیا جہاں حکومتی احکامات پر چند دنوں میں ریاست کے 20 فیصد بھیڑیوں کو مار دیا گیا۔

مئی میں سیرا کلب اور دی ہیومین سوسائٹی آف یونائیٹڈ سٹیٹس سمیت مختلف تنظیموں کے رضاکاروں نے جو بائیڈن پر زور دیا تھا کہ وہ ناردرن راکیز بشمول وائیومنگ، آئیڈہو اور مونٹانا میں سرمئی بھیڑیوں کے لیے وفاقی تحفظ کا سٹیٹس بحال کریں۔

سینٹر فار بائیولوجیکل ڈائیورسٹی کے سینیئر اٹارنی آندریا زکاردی کہتے ہیں: ’آئیڈہو اور مونٹانا میں بھیڑیوں کو ہر ممکن طریقے سے ہلاک کرنے کے قانونی احکامات مغرب میں بھیڑیوں کی آبادی کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔

’یو ایس فش اینڈ وائلڈ لائف سروس کو بھیڑیوں کے لیے خطرات سے دوچار جانوروں کے ایکٹ کو دوبارہ لاگو کرنا چاہیے تاکہ ریاست بھرمیں ان کے قتل عام کو روکا جا سکے قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے۔‘

کچھ علاقوں میں بھیڑیوں کے حالات بہتر بھی ہیں۔ کولاراڈو میں آخری جنگلی بھیڑیے کو گولی مارے جانے کے ٹھیک 75 برس بعد، گزشتہ نومبر وہاں کے عوام نے بھیڑیوں کو دوبارہ ریاست میں لانے کا عمل شروع کرنے کے حق میں ووٹ دیے۔

یہ اقدام 56 ہزار ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا اور ریاستی حکام کو یہ مینڈیٹ ملا کہ وہ 2023 کے آخر تک سرمئی بھیڑیوں کو ریاست میں دوبارہ لانے کا منصوبہ بنائیں۔

ڈیفینڈرز آف وائلڈ لائف نامی گروپ میں وولف ایکسپرٹ کے طور پر کام کرنے والے شان کانٹریل کہتے ہیں کہ کولوراڈو میں ہونے والی ووٹنگ مثال ہے کہ عوام کو بھیڑیوں سے متعلق آگاہی دے کر کیا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم آئیڈہو اور مونٹانا کے علاوہ مختلف مقامات پر لوگوں کو آگاہی دینے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں بھیڑیے جذباتی اور تفرقہ انگیز معاملہ بن گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں ان کا گروپ کسانوں کے ساتھ مل کر مویشیوں پر بھیڑیوں کے حملے کم کرنے میں کامیاب ہوا جس سے انھیں امید ملی کہ بیچ کا راستہ موجود ہے۔

شان کانٹریل کہتے ہیں: ’واشنگٹن میں سالانہ بنیاد پر بھیڑیوں کے غولوں کے 80 فیصد کی مویشیوں کے ساتھ کوئی مڈھ بھیڑ نہیں ہوئی، وہاں بھیڑیوں کی تعداد زیادہ نہیں، 100 کے قریب بھیڑیے 20 غولوں میں رہتے ہیں اور ان میں سے اکثریت کا مویشیوں کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ مویشیوں کی بڑی تعداد جن سے کسان محروم ہوتے ہیں وہ کسی بیماری یا انسانوں کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں جیسا کہ کار یا ٹرک ایکسیڈنٹ، اس کے علاوہ لوگ گائے چرا بھی لیتے ہیں۔

’حقیقت یہ ہے کہ مویشیوں کے ہونے والے نقصان کی بڑی تعداد کا تعلق بھیڑیے تو دور کسی دوسرے شکاری جانور سے بھی نہیں ہوتا البتہ یہ درست ہے کہ دور دراز علاقوں میں قائم لائیو سٹاک آپریشنز میں بھیڑیوں کا بہت چھوٹا لیکن حقیقی اثر ہوتا ہے لیکن آئیڈہو اور مونٹانا میں ہونے والی قانون سازی زیادتی پر مبنی ہے۔‘

شان سمجھتے ہیں کہ ردعمل معاشرے کے انتہائی چھوٹے لیکن با اثر حلقے کی جانب سے آتا ہے جو بھیڑیوں کو پسند نہیں کرتے اور ان سے ڈرتے بھی ہیں۔

انہوں نے کہا: ’وہ کتے ہیں ۔۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں میرے والد نے اس علاقے میں 75 برس کھیتی کی ہے لیکن یہاں بھیڑیے موجود نہیں تھے اب وہ یہاں آگئے ہیں جو ایک مسئلہ ہے۔‘

شان کا کہنا ہے کہ ’وہ جذبات اور محرکات جنہوں نے 100 سال قبل بھیڑیوں کے خاتمے کی مہم کو پروان چڑھایا اور 60 کی دہائی تک برقرار رکھا اب تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات