جسٹس عیسیٰ کیس:درخواستیں واپس کرنےکےخلاف حکومت کی پھراپیل

رجسٹرار سپریم کورٹ نے رواں برس مئی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں نظر ثانی کی نو حکومتی درخواستیں (کیوریٹیو ریویو پٹیشنز) مبینہ طور پر ’نازیبا زبان‘ کے استعمال اور دوسری کئی خامیوں کے باعث واپس کردی تھیں۔

قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف سپریم کورٹ کو بھیجے گئے صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ میں ہی چیلنج کیا تھا (فائل فوٹوـ: اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں رجسٹرار کی جانب سے حکومتی درخواستیں واپس کرنے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے۔

یاد رہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے رواں برس مئی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں نظر ثانی کی نو حکومتی درخواستیں (کیوریٹیو ریویو پٹیشنز) مبینہ طور پر ’نازیبا زبان‘ کے استعمال اور دوسری کئی خامیوں کے باعث واپس کردی تھیں۔

سپریم کورٹ نے بھی نظرثانی درخواست پر دیے گئے فیصلے کے خلاف مزید نظر ثانی کی درخواستیں دائر کرنے کو غیر ضروری قرار دیا تھا۔  

اسی سال جون میں وفاقی حکومت نے کاغذی کارروائی مکمل نہ ہونے کی وجہ سے رجسٹرار کے فیصلے کے خلاف اپیل داخل کرنے کے لیے 15 دن کی مہلت مانگی تھی۔

رجسٹرار سپریم کورٹ نے مہلت کی درخواست اس شرط پر منظور کی تھی کہ حکومت نظر ثانی درخواست کی سماعت کرنے والے دس ججوں میں ہر ایک کے لیے درخواست کی نو، نو کاپیاں (مجموعی طور پر 90 کاپیاں) پیش کرے گی۔

سپریم کورٹ کے 1980 میں بنائے گئے قواعد کے مطابق رجسٹرار کے دفتر کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے کسی بھی اپیل کا فیصلہ ان کے چیمبر میں چیف جسٹس آف پاکستان کے نامزد کردہ جج کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو اپیل کو منظور کرنے یا تین رکنی بینچ کو بھیجنے کا مجاز ہوتا ہے۔ 

عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار کے دفتر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومت کی نظرثانی کی درخواست کو واپس کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا تھا کہ وفاق کی داخل کردہ پانچ درخواستوں کے سیٹ میں 1980 کے قواعد و ضوابط کی تشریح غلط تھی۔

رجسٹرار دفتر نے درخواستیں واپس کیوں کی تھیں؟

رجسٹرار نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ موجودہ معاملہ دوسری نظرثانی کی درخواست کے ہونے کے باعث سپریم کورٹ کے قواعد کے آرڈر 36 رول نمبر نو کے تحت نہیں سنا گیا۔ 

فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ نظر ثانی کی اپیل پر فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر نہیں کی جا سکتی اور کوئی درخواست بھی رجسٹرار قبول نہیں کرے گا۔ 

رجسٹرار نے مزید لکھا کہ درخواستوں کے پہلے صفحے پر ’ازخود نوٹس‘ درج تھا جبکہ اندر کے صفحات پر درخواستوں کو ’کیوریٹیو ریویو پٹیشنز‘ قرار دیا گیا تھا، جبکہ درخواست دہندگان کی جانب سے وکیلوں کے نام مختار نامے بھی موجود نہیں تھے اور درخواستوں میں پانچ مقامات پر ’نازیبا الفاظ‘ کا استعمال کیا گیا تھا۔

مزید لکھا گیا کہ درخواست گزار نے جسٹس عیسیٰ سمیت مدعا علیہان کو مناسب نوٹس بھی جاری نہیں کیے تھے اور اسی لیے درخواستیں منظور نہیں کی جا سکتیں۔

یاد رہے کہ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف سپریم کورٹ کو بھیجے گئے صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ میں ہی چیلنج کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت عظمیٰ نے 19 جون 2020 کو اکثریتی فیصلے کے ذریعے صدارتی ریفرنس تو خارج کر دیا تھا، تاہم فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کی تین غیر ملکی جائیدادوں پر تحقیقات اور بعد میں ٹیکس عائد کرنے کا اختیار دیا تھا۔ 

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی جسے عدالت عظمیٰ نے اپریل 2021 میں منظور کرتے ہوئے اپنے ہی 19 جون 2020 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔

اپریل کے فیصلے میں عدالت نے 19 جون کے فیصلے کے نتیجے میں ہونے والی تمام کارروائی، اقدامات، احکامات، معلومات اور اطلاعات اور مختصر آرڈر کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

فیصلے میں واضح کیا گیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) سمیت کوئی بھی فورم کسی بھی رپورٹ یا آرڈر کو زیر غور لائے گا اور نہ ہی کوئی کارروائی کر سکے گا۔  

مختصر حکم کے نتیجے میں 19 جون کے مختصر آرڈر کے آٹھ پیراگراف (چار سے 11 تک) اور اس کے بعد 23 اکتوبر کے تفصیلی فیصلے کو واپس لیا گیا تھا۔ ان پیراگرافوں کو نظرثانی درخواستوں کے ذریعے درخواست گزاروں نے چیلنج کیا تھا۔

حکومت نے نظر ثانی کی درخواستوں میں سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ جوڈیشل کونسل کو پیش کی گئی ایف بی آر کی رپورٹ کی حد تک فیصلے پر نظرثانی کی جائے تاکہ کونسل جسٹس عیسیٰ کے خلاف کارروائی کرسکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان