بلوچوں سے مذاکرات کا ’شوشہ‘

یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کو محروم رکھا گیا؟ سوال یہ ہے کہ کس نے محروم رکھا؟ ہر حکومت نے ایک سے بڑھ کر ایک ترقیاتی پیکج دیا۔ یہ سارا پیسہ گیا کہاں؟

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال صدر عارف علوی کو سبی میں سوئنیر پیش کر رہے ہیں (محکمہ اطلاعات بلوچستان)

غیر جمہوری حکمرانوں کی ایک عادت یہ ہے کہ جب انہیں لگتا ہے عوام ان سے اکتا گئے ہیں تو وہ کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں۔ آج کل کا نیا شوشہ بلوچستان کے ناراض لوگوں کے ساتھ مذاکرات ہے۔

یہ کوئی نئی سنجیدہ کوشش  نہیں ہے۔ یہ کام ہر حکمران نے اپنے دور میں کیا ہے اور بظاہر آئندہ بھی ہوتا رہے گا لیکن اس موجودہ جمہوریہ کے پاس نہ بلوچوں کے لیے کچھ ہے اور نہ دوسرے شہریوں کے لیے کیونکہ یہ ایک ناکام اور بوسیدہ نظام پر قائم ہے۔

میں جب یہ بات کرتا ہوں تو سیاسی پارٹیوں سے منسلک لوگ اور شوشوں میں حکمت تلاش کرنے والے دانشور مجھے یہ طعنہ دیتے ہیں کہ میں اپنی سیاسی ناکامیوں کا انتقام اس نظام سے لینا چاہتا ہوں۔ میرا جواب انہیں ہمیشہ یہی ہے کہ اگر میرا خیال غلط ہے تو یہ جمہوریہ مسلسل چار الیکشنوں اور اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی مزید پستیوں میں کیوں جا رہی ہے اور اس کا مستقبل تابناک ہونے کی بجائے تاریک کیوں نظر آتا ہے۔ اب میں آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ موجودہ جمہوریہ بلوچستان کا مسئلہ کیوں حل نہیں کر سکتی۔ 

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ ہے کیا؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے میں نے ایک بلوچ تاریخ دان کی کتاب پڑھی جنہوں نے کئی صدیوں پر محیط اس جدوجہد کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔ کیا بلوچوں کا مسئلہ تشخص ہے؟ یہ مسئلہ نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ ایران میں رہنے والے بلوچ جس صوبے میں رہتے ہیں وہ سیستان کہلاتا ہے مگر پاکستان نے ان کا تشخص تسلیم کرتے ہوئے صوبے کا نام بلوچستان ہی رکھا۔ اس صوبے کی اسمبلی کے انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں اور کئی نامور بلوچ سردار رکن پارلیمان بھی ہیں اور وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔

کیا بلوچوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کردوں کی طرح ایک الگ ملک میں رہنا چاہتے ہیں؟ تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ قبائلی نظام کا ایک دور تھا جب قبیلوں کے اپنے علاقے ہوا کرتے تھے مگر اس کے بعد قدرتی سیاسی ارتقائی عمل کے بعد ریاست کا تصور پیدا ہوا جہاں مختلف ثقافتوں، تہذیب اور مذاہب کے لوگ ایک عمرانی معاہدے کے تحت ساتھ رہنے لگے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس لیے یہ تصور کہ کوئی بلوچ ریاست ہوگی تو بلوچ عوام بہت خوشحال اور کامیاب ہوگی صرف ایک پروپیگینڈا اور دھوکا ہے۔ بلوچستان صوبے میں ایک بہت بڑی تعداد میں پشتون اور دیگر قومیں بھی رہتی ہیں تو کیا جب بلوچستان کے مسائل کی بات ہوتی ہے تو صرف بلوچوں کے مسائل کی بات ہوتی ہے؟

تیسرا مسئلہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کو محروم رکھا گیا؟ سوال یہ ہے کہ کس نے محروم رکھا؟ ہر حکومت نے ایک سے بڑھ کر ایک ترقیاتی پیکج دیا۔ یہ سارا پیسہ گیا کہاں؟

سب سے پہلے یہ ہونا چاہیے کہ ایک بلوچ معاشی اور اکاونٹنگ  ماہرین کی کمیٹی بنے جو اس بات کی تحقیق کرے کہ پچھلے 20 سالوں میں کتنی رقم ترقیاتی کاموں کے لیے رکھی گئی، کتنی لگی، کن منصوبہ پر لگی اور آج ان پروجیکٹس کا کیا حال ہے۔ ان منصوبوں سے بلوچ عوام کو کتنا فائدہ ہوا اور دوسروں نے کتنا فائدہ اٹھایا۔ 

بلوچستان پر جب بھی مذاکرات ہوئے اس کی بھی ایک مخصوص روش رہی۔ ان تمام مذاکرات کا مکمل محور اس بات پر رہا ہے کہ چند سرداروں کو کیسے خوش کیا جائے۔ ہر حکومت ایک کمیٹی بناتی ہے جو چند گنے چنے سرداروں سے ملتی ہے، کئی ارب روپے کی رقم ان سرداروں کو رائلٹی کے نام پر دی جاتی ہے، کئی ارب کے وعدے ہوتے ہیں اور چند سیاسی عہدے دیئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ عرصے سکون رہتا ہے جب سردار پیسہ کھا پی چکیں تو شورش دوبارہ شروع ہو جاتی ہے اور ایک نیا دائروں کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ریاست بلوچوں پر جبر نہیں کر رہی۔ مگر ریاست کا جبر صرف بلوچوں کے ساتھ نہیں ہے۔ مِسنگ پرسن پشتون بھی ہے، سندھی بھی ہے، پنجابی بھی ہے اور بلوچ بھی۔ شاید کچھ قبائل کے لوگ زیادہ ہوں گے اور کچھ کے کم مگر موجودہ جمہوریہ ایک جبر کے نظام پر قائم ہے اور اس کا تعلق صرف بلوچوں سے نہیں ہے۔

اس جبر کے نظام کو جب تک عوامی نظام سے نہیں بدلا جائے گا اس وقت تک بلوچوں کے مسائل بھی حل نہیں ہوں گے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ میں حکومت کو چیلنج دے رہا ہوں میری بات کو غلط ثابت کر کے دکھا دیں۔

حل وہی ہے کہ ایک قومی سیاسی مذاکرات جہاں ایک عوامی جمہوریہ کی تعمیر ہو جس میں تمام کمزور اور محروم کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے صرف اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔

 

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ