بلوچستان: ’کچھ وقت بعد ہم اپنے سرسبز علاقوں کو صحرا بنا دیں گے‘

محکمہ موسمیات پاکستان نے سندھ اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں خشک سالی کا انتباہ جاری کیا ہے جس کے اثرات اب زمیندار محسوس کرنا شروع ہوگئے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی وادی اڑک میں خشک ہوجانے والی حنا جھیل کی تہہ کا منظر۔ 2018 میں بلوچستان کو بد ترین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ (اے ایف پی فائل)

بلوچستان کے ضلع چاغی کے زمیندار نیک محمد اس وقت گندم کی فصل کاٹ رہے ہیں، جس کی پیداوار ان کی توقعات سے کم ہوئی ہے۔ اس کی وجہ وہ اس سال بارشوں میں کمی اور پانی کی قلت بتاتے ہیں۔

علاقے میں خشک سالی کے حوالے سے الرٹ جاری ہوچکا ہے اور رہائشی ذاتی طور پر اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ 

محکمہ موسمیات پاکستان نے سندھ اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں خشک سالی کا انتباہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا کہ اکتوبر 2020 سے مئی 2021 تک بلوچستان میں 59.5 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں، جبکہ جنوری 2021 سے مارچ کے دوران 61 فیصد کم بارشیں ہوئیں۔ 

 سرکاری الرٹ میں مزید کہا گیا کہ نومبر 2021 تک مزید بارشوں کے امکانات بھی نہیں ہیں۔  

 بلوچستان کے جن اضلاع میں خشک سالی کے اثرات شدید ہیں ان میں  چاغی، گوادر، خاران،  کیچ، پنجگور اور واشک شامل ہیں۔ 

چاغی کی  تحصیل چاگئے کے زمیندار نیک محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس بار پھر ہمیں خشک سالی کا سامنا ہے، جس کے باعث ہماری پیدوار آدھی سے بھی کم ہوگئی ہے۔‘ 

 انہوں نے کہا: ’ہمارے علاقے میں زمینداری بجلی پر نہیں بلکہ ڈیزل سے چلنے والے جنریٹرز کے ذریعے ہوتی ہے اس وجہ سے ہمارا خرچہ زیادہ ہے۔ دوسری طرف بارشیں نہ ہونے کے باعث فصل کی پیداوار میں کمی ہوگئی ہے۔‘ 

ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی زمیندار نے گذشتہ برس کی فصل سے 100 بوری گندم حاصل کی تھی تو اس سال اس کی زمین سے 40 بوری گندم حاصل ہوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیک محمد نے بتایا کہ گندم کے علاوہ تربوز، خربوزہ اور پیاز کی کاشت بھی یہیں ہوتی ہے۔ اب اگر پیدوار کم ہوگی تو نہ صرف زمیندار کا نقصان ہوگا بلکہ وہ مزید زمینداری کرنے سے کترانے لگے گا۔  

چاگئے کے زمیندار کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف بارشیں کم ہوئی ہیں اور دوسری طرف گرمی کی شدت بڑھ گئی ہے جس سے تربوز اور خربوزے کی فصل بھی خراب ہورہی ہے۔ 

ان کے مطابق: ’اگر کسی زمیندار نے پیاز کاشت کیا ہے اور اگر اس کی ایک بوری دو ہزار سے زیادہ قیمت میں فروخت ہوجائے تو زمیندار کو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اگر قیمت کم ہوجاتی ہے تو زمیندار کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوگا۔ اس صورت میں وہ کیا کرے گا؟‘ 

 نیک محمد 15 سال سے زمینداری سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے اس سے پہلے بھی خشک سالی کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سال 2001 میں بھی شدید خشک سالی ہوئی تھی، جس سے نہ صرف زمینداری بلکہ مال برداری کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ 

چاغی میں خشک سالی کے باعث زراعت کے ساتھ ساتھ مال برداری بھی متاثر ہورہی ہے اور زمینداروں کے مال مویشی مر رہے ہیں۔ 

 ضلع چاغی کی تحصیل میں تقریباً پانچ ہزار افراد زمینداری کرتے ہیں۔ یہاں پر زیرزمین پانی کی سطح 100 فٹ ہے، جس میں بارشوں میں کمی کے باعث اضافہ ہو رہا ہے۔  

نیک محمد اور اس جیسے دیگر زمینداروں کو اس وقت جس خشک سالی کا سامنا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ان کی تربیت بھی نہیں ہوئی ہے۔ 

محکمہ موسمیات کے سرکاری الرٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظر خشک سالی سے زراعت اور مال برداری متاثر ہوگی، جس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ پیشگی اقدامات کرلیں تاکہ زیادہ نقصانات سے بچا جاسکے۔ 

صوبہ بلوچستان میں زراعت سے متعلق تبدیلیوں اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر نظر رکھنے والے ماہر زراعت ڈاکٹر عارف شاہ کاکڑ سمجھتے ہیں کہ خشک سالی میں موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ انسانی وجوہات بھی شامل ہیں۔ 

ڈاکٹر عارف شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب ایک مخصوص وقت کے دوران خشک موسم برقرار رہتا ہے تو وہاں پر خشک سالی ہوجاتی ہے۔ اس کی بہت سے قسمیں ہیں، جن میں ایک میٹرولوجیکل بھی ہے۔

خشک سالی سے پیدوار میں کمی 

ڈاکٹر عارف شاہ کے مطابق: ’خشک سالی سے پیدوار میں کمی کو جاننے کے لیے فصلوں کی صورت حال کو جاننا ہوگا۔ اگر ہم گندم کی مثال لیں تو اس کے پانچ انتہائی اہم مرحلے ہوتے ہیں، جیسے خوشے بننا، دانے پکنا۔ اگر اس دوران فصل کو پانی نہیں ملتا ہے تو اس سے پیدوار میں کمی ہوسکتی ہے۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ ’اس طرح اگر سیب کو دیکھیں تو اس کے درخت کو سردیوں میں زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی اور جب موسم گرما یعنی جون جولائی میں اس کے دانے بڑھتے ہیں ان میں رنگ لگتا ہے، سائز میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر اس دوران مطلوبہ پانی کی فراہمی کم ہو جائے تو اس کی پیداوار انتہائی کم ہو جائے گی۔‘ 

خشک سالی کی وجوہات 

ماہر زراعت ڈاکٹر عارف شاہ کہتے ہیں: ’بلوچستان کے جغرافیے پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں پتہ چلے گا کہ یہاں پر کچھ علاقے ایسے ہیں جو مون سون کی رینج میں ہیں، جیسے ژوب، شیرانی، موسیٰ خیل وغیرہ، جبکہ کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جو خشک ہیں اور ان پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بھی ہیں۔‘ 

 عارف شاہ کے بقول: ’مصنوعی خشک سالی کے وجوہات کو میں غیر ضروری ڈرلنگ قرار دیتا ہوں، جس سے ہماری زیر زمین پانی کی سطح کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘

عارف شاہ مزید کہتے ہیں:  ’بلوچستان میں زراعت میں ہم ابھی تک فلڈ ایری گیشن کا طریقہ کار اپنائے ہوئے ہیں، اس کے باوجود کہ ہمارے علاقے میں خشک سالی ہے اور بارشیں کم ہورہی ہیں۔ خشک سالی کے باعث چارہ اور خوراک کی کمی کے باعث لوگ نقل مکانی پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔‘

عارف شاہ زیرزمین پانی کے بے دریغ استعمال کو تباہی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اب بعض ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ سب ہماری تباہی ہے۔ کچھ عرصہ تو ہم پانی نکال لیں گے۔ لیکن کچھ وقت کے بعد ہم اپنے سرسبز علاقوں کو صحرا میں تبدیل کردیں گے۔‘ 

ڈاکٹرعارف نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ’اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایسے درختوں پر توجہ دینا ہوگی، جن کو کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے زیتون، پستہ یا بادام۔ دوسری جانب ہمیں ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے حوالے سے بھی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔‘ 

 ماہرین زراعت کے مطابق بلوچستان میں 10، 20 سال سے لے کر 50 سال قبل بھی خشک سالی کے ادوار گزرے ہیں، جس سے زراعت، مال برداری کے ساتھ ان علاقوں کے سماجی اور معاشی حالات پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات