بلوچستان: زرعی ٹیوب ویلوں کی سولرائزیشن امید کی کرن

 ضلع خضدار کے علاقے گریشہ میں 24 گھنٹے میں بجلی صرف ایک سے تین گھنٹے ہوتی ہے اور زمیندار کہتے ہیں کہ اس سے کسی فصل کو مکمل پانی دینا ممکن نہیں ہے۔

زمینداروں کی مشکلات اور بلوچستان میں بجلی کی بچت کے لیے وزیراعظم عمران خان نے زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کی منظوری دے دی ہے (تصویر: یوٹیوب سکرین گریب)

کھیتی باڑی کے لیے مشہور بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے گریشہ میں ہر طرف لہلہاتے کھیت نظر آتے ہیں اور زمیندار خوش ہیں کہ انہیں اس بار فصلوں سے اچھی آمدنی ملے گی۔

 نذیر شاہوانی بھی انہی زمینداروں میں شامل ہیں جو ان فصلوں سے فائدہ پہنچنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ گذشتہ 20 سال سے زمینداری کر رہے ہیں، جو ان کا واحد ذریعہ معاش بھی ہے۔

وہ سرکار کی طرف سے ملنے والی سبسڈی کی بجلی استعمال کرتے ہیں، لیکن اکثر اوقات کم بجلی اور پانی نہ ملنے کے باعث فصلوں کے خراب ہونے سے نقصان اٹھاتے ہیں۔

نذیر نے بتایا کہ خضدار کے علاقے گریشہ میں اکثر لوگوں کا یہی پیشہ ہے، جہاں پیاز، گندم اور کپاس کاشت کی جاتی ہے۔

نذیر شاہوانی کے بقول: ’بجلی کم ملنے کے باعث میری طرح یہاں کا ہر زمیندار قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہم اپنے لیے نہیں بلکہ شاید منڈی کے بیوپاریوں کے لیے محنت کرتے ہیں۔‘

یہ صرف نذیر کی کہانی نہیں ہے بلکہ علاقے میں 100 سے زائد بجلی پر چلنے والے ٹیوب ویل مالکان کی کہانی ہے، جو محنت تو کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی خوش نہیں ہیں۔

نذیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمارے علاقے میں کسی حد تک وہ لوگ زیادہ کمائی کر رہے ہیں، جنہوں نے سولر پمپ لگائے ہیں اور جنہیں پورا دن پانی ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ان کو بھی وسائل یا ایسے مواقع مل جائیں، جس سے وہ اپنا ٹیوب ویل سولر پر منتقل کردیں تو شاید ان کے دن بدل جائیں۔

واضح رہے کہ خضدار کے اس علاقے میں 24 گھنٹے میں بجلی صرف ایک سے تین گھنٹے ہوتی ہے۔ زمیندار کہتے ہیں کہ اس سے کسی فصل کو مکمل پانی دینا ممکن نہیں ہوتا ہے۔

زمینداروں کی مشکلات اور بلوچستان میں بجلی کی بچت کے لیے وزیراعظم عمران خان نے زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کے دوران وزیراعظم نے پاور ڈویژن اور صوبائی حکومت کو اس منصوبے پر عملدرآمد کے حوالے سے جامع پلان اور حکمت عملی مرتب کرنے اور منصوبے کے حوالے سے ٹائم لائنز پر مبنی روڈمیپ جلد از جلد مرتب کرنے کی بھی ہدایت کی۔

وزیراعظم نے اس موقع پر کہا کہ بلوچستان کے سماجی و معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے ٹیوب ویلوں کی مد میں اربوں روپے کی سبسڈی فراہم کرنے کے باوجود بھی جہاں کسان مشکلات کا شکار ہیں، وہاں گردشی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے کہ بلوچستان میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ سے زمیندار اکثر سراپا احتجاج رہتے ہیں۔

 ادھر بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر اپوزیشن ارکان نے کہا کہ کیسکو نے 18 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ شروع کردی ہے، جس سے زمیندار مشکلات کا شکار ہیں۔

جس پر حکومتی رکن دنیش کمار نے اجلاس کو بتایا کہ متعلقہ محکمے نے سمری وزیراعلیٰ بلوچستان کو ارسال کردی ہے اور جلد ہی بلوچستان حکومت کیسکو کو چھ ارب روپے کی رقم ادا کردے گی۔

 دوسری جانب کیسکو ذرائع نے بتایا کہ بلوچستان میں رجسٹرڈ ٹیوب ویلوں کی تعداد 29 ہزار ہے، جن کو 40 فیصد وفاق اور 60 فیصد بلوچستان حکومت کی جانب سے بجلی کی مد میں سبسڈی دی جارہی ہے۔

حکام نے بتایا کہ اگر بلوچستان میں کیسکو کے ساتھ رجسٹرڈ ٹیوب  ویلوں کو سولر پر منتقل کیا جائے تو اس سے کم از کم تین سو میگاواٹ بجلی کی بچت ہوگی۔

 نذیر شاہوانی کہتے ہیں کہ بجلی کی کمیابی اور پانی نہ ملنے سے وہ اپنی فصل سے تین  سے چار سو بوری گندم اٹھانے کی بجائے صرف پچاس بوری حاصل کرتے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ اگران کے ٹیوب ویل کو سولر پر منتقل کیا جائے تو وہ بھی دوسرے زمینداروں کی طرح وہ گندم، پیاز اور کپاس کی فصل سے سالانہ دس لاکھ تک کا منافع حاصل کرسکتے ہیں۔

نذیر کے مطابق: ’ہماری صورتحال ایسی ہےکہ ہم اکثر اوقات سارا سال محنت کے باوجود زمینداری کا خرچہ بھی پورا نہیں کرسکتے، جس کے باعث ہمیں مجبوراً قرضہ لینا پڑتا ہے۔‘

واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں پیدا ہونے والی کپاس کو معیاری قرار دیا جاتا ہے، جو علاقے میں نقدآور فصل بھی ہے۔

بلوچستان کے زمیندار جہاں ایک طرف بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اور پانی کی کمی جیسی مشکلات سے دوچار ہیں، وہیں حکومت کا یہ فیصلہ ان کے لیے امید کی کرن ہے، جس میں انہیں اپنا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان